غلو کے مقابلے کے لیے امام جعفر صادق(ع) کی حکمتِ عملی 1
حق کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کو مکمل طور پر مٹایا نہیں جا سکتا ہے۔وقتی طور پر اس کو دبانا ممکن ہے، اس کو باطل کے ساتھ مخلوط کر دینا بھی خارج ازامکان نہیں ہے لیکن بہر طور حق کو بالکل ختم نہیں کیا جاسکتا ہے اوریہ اپنے فطری ماحول میں ہر صورت ظاہر ہو کر رہتا ہے۔شیعہ مذہب کی حقانیت کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ طول تاریخ میں جتنی اس مذہب کو صفحہ ہستی سے محو کیے جانے کی کوششیں کی گئی ہے شاید ہی کسی اور مکتب فکر کو ختم کرنے کے لیے کی گئی ہوں۔
کبھی وار شمشیر کا سہارا لیا گیا تو کبھی زور تحریر کا،کبھی شور خطابت کو آزمایا گیا تو کبھی ہرطور مزاحمت کو،کبھی بیرونی حملوں کو کافی سمجھا گیا اور کبھی اندرونی سازشوں کو قوی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا ۔ داخلی حملوں میں سے ایک حملہ شیعوں کے اندر غالی افراد و افکار کو داخل کر دینا بھی ہے اور یہ وار بہت خطرناک ثابت ہوا۔ہر امام معصوم علیہ السلام نے اپنے دور میں جہاں دیگر حملوں کے خلاف مقاوت کی اور زمان و مکان کی نزاکت کے پیش نظر ہر یلغار کا مناسب ردِعمل ظاہر فرمایا وہاں غلو کی تحریک کی سرکوبی کے لیے بھی ہر امام معصوم علیہ السلام نے ایک خاص حکمت عملی (strategy) کو اختیار فرمایا۔امام جعفر صادق علیہ السّلام نے غلو کی تحریک کا مؤثر مقابلہ کرنے کے لیے جس حکمت عملی کو انتخاب فرمایا اس کے اہم نکات ذیل میں پیش خدمت ہیں
(1)غالیوں کو ان کے غلط عقائد کے بارے میں متوجہ کرنا اور توبہ کی ترغیب دلانا
امام جعفر صادق علیہ السّلام نے غالیوں کے سرغنہ ابو الخطاب کو ایک خط میں اس کے بعض غلط عقائد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے متوجہ فرمایا ۔ارشاد ہوتا ہے کہ (بلغنی انك تزعم أن الزنا رجل و أن الخمر رجل وان الصلاة رجل وان الصيام رجل وان الفواحش رجل وليس هو كما تقول،انا اصل الحق و فروع الحق طاعة الله و عدونا اصل الشرو فروعهم الفواحش بحار الانوار ۔219/44
ترجمہ:مجھ تک یہ بات پہنچی ہے کہ تمہارا گمان یہ ہے کہ یہ زنا،شراب،نماز،روزہ اورفواحش کا مفہوم وہ نہیں ہے یہ جو ہم پیش کرتے ہیں بلکہ) کچھ افراد کے نام ہیں تم جیسا کہہ رہے ہو ویسا نہیں ہے ہم حق کی اصل اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت حق کی فروع میں سے ہےاور ہمارا دشمن شر کی جڑ ہے اور اس کی شاخیں برائیاں ہیں۔اور ایک مقام پر امام جعفر صادق علیہ السلام نے غالیوں کو ان کے کفر و فسق وشرک کی نشان دہی کرتے ہوئے باقاعدہ توبہ کی دعوت دی
آپ علیہ السلام نے فرمایا: (توبوا الى الله فإنكم فسّاق كفار مشركون) ترجمہ:اللہ تعالیٰ سے توبہ کرو کیونکہ تم فاسق ،کافراور مشرک ہو۔ بحار الانوار 297/44
(2)غالیوں کی طرف سے پیش کردہ مغالطوں کا حل پیش کرنا
غالی مختلف احادیث کو توڑ موڑ کر یا انکو انکے سیاق وسباق سے جدا کر کے یا اس کے معنی کو بدل کر عام شیعوں مغالطوں کا شکار بناتے ہیں۔امام جعفر صادق علیہ السّلام نے اپنی زندگی میں یہ طرز عمل اپنایا ہوا تھا کہ جو بھی مغالطہ غالیوں کی طرف سے آتا اس کو اپنے شیعوں کے لیے حل فرماتے اور اس میں موجود سقم کی طرف رہنمائی فرماتے تھے۔مثال کے طور پر یہ واقعہ ملاحظہ ہو۔غالی عام شیعوں کو احکام شریعت پر عمل سے دور کرنے کے لیے امام علیہ السلام کی یہ حدیث سنایا کرتے تھے کہ ''جو کوئی ہماری معرفت حاصل کر لے وہ جو عمل چاہے انجام دے سکتا ہے''
اور اس سے مراد یہ لیتے تھے کہ چونکہ ہمارے دلوں میں اہل بیت علیہم السلام کی محبت موجود ہے اس لیے ہم کوئی گناہ بھی کر لیں یا کسی واجب کو بھی چھوڑ دیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔جب یہ بات امام جعفر صادق علیہ السّلام تک پہنچی تو آپ ع نے اس مغالطے کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ (إنما قلت إذا عرفت فاعمل ما شئتم من قليل الخير و كثيره فإنه يقبل منك)الکافی۔464/4
ترجمہ:میں نے تو صرف اتنا کہا تھا کہ جب تم نے (امام معصوم علیہ السلام کی)معرفت حاصل کر لی تو کم عمل خیر انجام دو یا زیادہ وہ آپ کی طرف سے قبول کر لیا جائے گا ۔
(3)شیعہ کتب میں غالیوں کی طرف سے داخل کردہ روایات کو جدا کر کے عام شیعوں کے لیے آشکار کرنا۔
غالیوں نے مختلف ادوار میں بڑی ہوشمندی کے ساتھ شیعہ کتب میں اپنے افکار ونظریات کو داخل کر دیا تھا اور عام شیعہ یہ سمجھنے لگ گئے تھے کہ چونکہیہ روایت شیعہ کتاب میں موجود ہے اس لیے یہ شیعت کا حصہ ہے ایسے میں یہ لازم ہو چکا تھا کہ عام شیعوں کو یہ بتایا جائے کہ انکی کتب میں کون سی روایات غالیوں کی طرف سے شامل کی گئی ہیں چنانچہ امام جعفر صادق علیہ السّلام نےمغیرہ نامی ایک غالی کے بارے میں اپنے شیعوں کو بتایا کرتے تھے کہ یہ شخص امام محمد باقر علیہ السّلام کے اصحاب کی کتابوں کو مطالعہ کرنے کے بہانے اپنے گھر جایا کرتا تھا اور( ويدسّ فيها الكفر والزندقة و یسندا إلى أبى ثم يدفعها إلى أصحابه)یعنی مغیرہ ان کتابوں میں کفر و زندقہ(لا دینی)کی افکار شامل کر دیتا تھا اور انہیں میرے والد سے منسوب کر کے یہ کتابیں اصحاب کو واپس لوٹا دیا کرتا تھا۔مناقب امیر المومنین لمحمد بن سلیمان الکوفی۔ص:225
اور امام جعفر صادق علیہ السّلام فرمایا کرتے تھے کہ( فكلما كان في كتب أصحاب أبي من الغلو فذاك مادسه مغيرة ابن سعيد في كتبهم) مناقب أمير المؤمنين لمحمد بن سليمان الكوفي.ص:225
ترجمہ:میرے والد گرامی کے اصحاب کی کتابوں میں جو کچھ بھی غلو کے بارے میں موجود ہے وہ ان کتابوں میں مغیرہ کی شامل کی ہوئی کئی باتیں ہیں۔یہ اہل علم و تحقیق پر لازم ہے کہ وہ غالیوں کی طرف سے داخل کردہ روایات کو عام شیعوں کے سامنے پیش کر کے ان سے اجتناب کی مسلسل تلقین کرتے رہیں۔جعل سازی کا یہ عمل آج بھی جاری وساری ہے کچھ لوگ اپنی طرف سے کچھ کتابیں لکھ کر جن میں کسی معتبر شیعہ کتاب کا صحیح حوالہ تک موجود
نہیں ہے عام شیعوں میں تقسیم کر دیتے ہیں۔اہل علم حضرات ہی اس جعل سازی کو بے نقاب کر سکتے ہیں۔وفقنا الله وإياكم للدفاع عن الحق.(جاری ہے)