عطاءالہی

2024-03-08 07:58

موہبت اللہ تعالی کا وہ عطیہ ہے جس کو اللہ نے انسان کی خلقت میں ودیعت کیا ہے۔ یعنی اس کے دل و جان اور بدن میں ڈال دیا ہے ۔ اس میں انسان کا غالبا کوئی اکتسابی دخل نہیں ہوتا۔

 الہی عطایا کی دو قسمیں ہیں : بدنی اور روحانی دوسرے الفاظ میں ظاہری اور معنوی جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی ایک قسم انسان کی ظاہری صفت کہلاتی ہے انسان کا ظاہر اس کا حامل ہوتا ہے اسی طرح خود انسان اور اس کےساتھ رہنے والے بھی اس صفت کاادراک کرتے ہیں۔ جبکہ دوسری قسم ایک باطنی صفت کہلاتی ہے جو کچھ اور طرح کے افعال کے نتیجے میں ظاہر ہوتی ہے۔ جب آدمی اپنے افعال و کردار کا مظاہرہ کرتا ہے تو اس وقت یہ صفت ظاہر ہوجاتی بہر کیف جسمانی موہبتیں بھی انسانی زندگی میں ایسی اہم امور شمار ہوتی ہیں کہ جن کے بارے میں تحقیق و تدقیق ہونا چاہئیے۔ لیکن چونکہ مقالہ ہذا کا موضوع معنوی عطایا ہیں اس لئے جسمانی موہبتوں کو کسی اور وقت کے لئے مؤخر کرتے ہیں۔ اس مقالے میں خاص طور سے معنوی عطایا پر گفتگو کریں گے۔ کیونکہ یہ کافی حد تک لوگوں کے لئے واضح بھی نہیں ہوتیں جبکہ یہ انسان اور اس کے ماحول پر گہرا اثر رکھتی ہیں ۔ لہذا مقالے کا یہ تقاضا بھی ہے اس پر بات کی جائے اورضروری ہوا تو کہیں کہیں جسمانی عطایا پر بھی قدرے گفتگو کریں گے۔

 دانشوروں نے معنوی عطیہ کی حقیقت کے بارے میں اختلاف کیا ہے کہ کیا یہ اسی عہد طفلی کا ہی انعکاس ہے جس کو انسان اپنے بچپنے کے وقت اپنے اردگرد کے ماحول سے متأثر ہوتا  اور سیکھتا ہے اور جب وہ بالغ اور بڑا ہوتا ہے تو درحقیقت ماضی کی سیکھی ہوئی چیزوں کا مظاہرہ کرتا ہے۔ یا یہ ایک اور حقیقی صفت ہے جو اس کے وجود میں پیدا ہوتے وقت رکھی گئی ہے؟  

  بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اس وقت ہی اپنی ایک ممتاز صفت کے ساتھ دنیا میں آتا ہے یہی اس کی حقیقت کو تشکیل دیتی ہے اور اس کے تحت وہ اپنے مستقبل کی عمارت کھڑی کرتا ہے ۔ وہ عطیہ جو انسان اپنے ساتھ لے کر آتا ہے وہ کسی نہ کسی طرح اس کی ایک فطری صلاحیت کہلاتی ہے۔ مثلا اس کا ظاہری ڈھانچہ جس کی وجہ سے بچہ اپنے دوسرے ساتھیوں سے زیادہ شکل صورت اور رنگ میں خوبصورت نظر آتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کو اگر مناسب ماحول مل جائےاور اس کے نشو نما کا ماحول خوشگوار ہوتو اس کی شخصیت بھی نکھر کر سامنے آتی ہے یا مثلا اگر کسی بچے میں شعر کہنے کی صلاحیت ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ بچپن سے ہی شعر کہتا اور خود بھی دلچسپی سے سنتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر اس کو فرصت مل جائے تو سادہ انداز سے شعر کہنا شروع کردیتا ہےاور جیسے جیسے پروان چڑھتا اس ہنر میں خوبصورتی اور مہارت آنے لگتی ہے یوں وہ عمدہ انداز سے شعر کہنے لگتا اور اپنی اس صلاحیت کو سیکھنے  اور مشق کے ذریعے مزید مضبوط بنا لیتا ہے۔ یہی مثال تحریرو حفظ اور تحلیل و ترکیب کی صلاحیت کی ہے ۔ یہ سب وہ صلاحیتیں ہیں جو بچے  کی فکری بالیدگی میں بڑا کردار ادا کرتی ہیں کہ جب بھی اسے مناسب ماحول مل جائے بچے کی یہ صلاحیتیں پھلتی پھولتی اور کمال کی طرف بڑھتی ہیں۔ بہت ساری جسمی اور ذہنی مہارتیں ایسی ہیں جو آدمی کی فطرت میں ہی ودیعت کردی گئی ہیں اور وہ اس کی فطرت کے ساتھ مرکب ہوئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم معاشرے میں دیکھتے ہیں کہ بعض افراد اپنے کاموں کی انجام دہی میں بہترین مہارت کا مظاہرہ کرتے ہیں جبکہ دوسرے اس طرح کی مہارت کےحامل نہیں ہوا کرتے۔ جبکہ یہ سب لوگ ایک ہی ماحول اور معاشرے میں رہتے ہیں۔

لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس طرح انسان اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کرتا اورکیسے اس سے فائدہ اٹھاتا ہے؟ تو اس کے شق اول کے جواب کا تعلق انسان کی اپنی ذات کی معرفت سے ہوتا ہے۔ اس مرحلے میں صلاحیت کے ظاہر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان ان چیزوں کو دیکھتا ہے جو اس کے لئے پسند ہیں یا نا پسند ، ان چیزوں کی جانب راغب ہوتا ہے جو اس کو پسند ہیں اور ان چیزوں سے دور رہتا اور نفرت کرتا ہے جو اس کے ذہن و فکر اور بدن کے ساتھ سازگار نہیں۔ پس جس شخص  کے لئے بھی ایسی استعداد و صلاحیت کی راہنمائی حاصل ہوجائے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اس کو مزید بڑھائے اور مضبوط کرے، اس سےفائدہ اٹھائے تو اس سے بہتر نتائج حاصل ہوسکیں۔ یہ قابلیت ہی ہے جو آدمی کی زندگی کی سمت معین کرتی ہے بلکہ یہ ایک برتر عشق کہلاتی ہے جو آدمی کو دلی طور سے سعادت کی طرف گامزن بھی کرسکتی ہے اور یہی وہ صفت ہے جو زندگی میں پیش آنے والی تکلیفوں سے سکون دے سکتی ہے۔ البتہ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ زندگی کی بھاگ دوڑ میں آدمی اپنی مذکورہ خداد صلاحیت کو نظر انداز کرجاتا ہے جس کے سبب یہ صلاحیت الجھنوں اور پریشانیوں کے کالے بادلوں کے پیچھے چھپ جاتی ہےاور آدمی ظاہری و باطنی ترقی کے ایک بہترین مؤثر عامل سے محروم رہ جاتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں پر پھر باطنی سکون کے علل و اسباب میں سے ایک سبب ہمیشہ کار فرما ہوتا ہے اور یہ وہ مرحلہ ہے جس کےساتھ اس خداد صلاحیت کی نعمت کی حفاظت اور اس کے عطا کرنے والی ذات کا شکر ادا کیا جانا چاہئیے اور کیا یہ مناسب ہے کہ انسان اس عطائے الہی پر خدا کا شکر ادا نہ کرے ؟ اور کیا یہ حق نہیں کہ انسان اللہ کا شکر ادا کرے؟

  یقینا ہر الہی موہبت کے پیچھے ایک ایسی حکمت پوشیدہ ہوتی ہے جس کو آدمی اس وقت تک نہیں سمجھ سکتا جب تک اس کی قدر و قیمت نہ جانے۔ خود انسان کی خلقت ہی کو دیکھیں کہ بذات خود ایک معجزہ الہی ہے۔ لہذا خدا داد فطری موہبتیں کیونکر معجزہ نہ ہوں۔

  یقنیا  خدا نے ہماری خلقت میں جو چیز بھی ودیعت فرمائی ہے اس کا ہماری دنیوی زندگی میں ایک کردار ہے۔ ہمیں اس عطیہ الہی پر پہلے تو خدا کا شکر ادا کرنا چاہیئے۔ دوسرے نمبر پر اس کی پاسداری بھی کرنی چاہیئے۔اس لئے کہ جو آدمی بھی اپنے حسن خلقت کو دیکھے ، اپنی تمام صلاحیتوں سے فائدہ اٹھائے۔ اس کو عطا کرنے میں خدا وند کریم نے جو خاص مہربانی کا ارادہ فرمایا ہے ان سب پر اللہ کا شکر ادا کرے تو اللہ کی طرف سے اس پر مزید نعمتوں کی بارش ہوجائے گی اور آدمی خوشی اور چین کی زندگی بسر کرے گا ۔ خدا اس کو مزید شکر ادا کرنے کی توفیق بھی دے گا۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اللہ نے اسے اپنی نعمتوں سے نہ صرف محروم نہیں رکھا ہے بلکہ اس کے دل میں ایک ایسی روشنی بھی ودیعت فرمائی ہے جس کے ذریعے وہ اپنے دل سے ہر قسم کے شکوک و شبہات کو بھی دورکرتا اور ان مواہب کے ذریعے ایک ایسا انوکھا گلدستہ بنالیتا ہے جس کے  حسن و زیبائی میں کوئی نظیر نہیں ملتی ہے۔

 یقینا اس مقام پر بات کرنے کی گنجایش تو بہت تھی لیکن وہ نکتہ جس کی جانب اشارہ کرنا ضروری ہے وہ دو چیزیں ہیں : پہلی چیز یہ ہے کہ انسان ہر صورت میں ایک موہبت الہی سے خالی نہیں ہے اور وہ در حقیقت اس موہبت پر ایمان رکھنا اس کو ظاہر کرنا اور اس کے مطابق عمل کرنا ہے۔ دوسری چیز یہ موہبت اور عطیہ یقنیا ایک نعمت ہے کہ اگر اس کوخدا کی نافرمانی کی راہ میں استعمال کیا تو یہ ایک عذاب میں بھی بدل جاتی ہے۔ یہ وہ مسئلہ ہے جس کے منفی اثرات سے محفوظ رہنے کے بارے اپنے آیندہ مقالے میں انشاء اللہ  گفتگو کریں گے۔اللہ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں توفیق و نصرت عطا فرمائے۔ نعمتوں کے بدلے اس کے حکم اور امر کو بجا لانے والوں میں سے قرار دے، بے شک وہ سننے اور جواب دینے والا ہے  


العودة إلى الأعلى