عراق میں امریکی ٹیم تیسرے آشوری بادشاہ کے محل کے دروازے تک پہنچ گئی
ایک امریکی ٹیم نے تیسرے آشوری بادشاہ کے محل کے ایک دروازہ کا کھوج لگایا ہے۔ اس پر کھودائی سے قدیم خطاطی میں لکھائی موجود ہے ۔
موصل کے شہر نمرود میں آثار قدیمہ پر کام کرنے والی امریکی یونیورسٹی آف بنسلفانيا کی ٹیم کو کھدائی کے دوران آشوری سلسلے کے تیسرے بادشاہ کے محل کا ایک دروازہ ملا ہے جس میں قدیم خطاطی میں نقوش کے ساتھ لکھائی موجود ہے۔
یہ تقریبا (811-783 قبل مسیح) کا محل ہے۔
موصل کے قریب واقع یہ قدیم شہر نمرود اور آشوری تہذیب کا مرکز رہا ہے ۔یہ بیسویں صدی کی اہم ترین آثار قدیمہ کی دریافتوں میں سے ایک ہے ۔ تہذیبوں کا گہوارہ کہلانے والے ملک میں، یہ سب سے مشہور نوادرات کا خزانہ ہے۔
مقام
یہ تاریخی شہر شمالی عراق کے سب سے بڑے شہر موصل سے 30 کلومیٹر جنوب میں دریائے دجلہ کے کنارے پر واقع ہے۔
نمرود شہر کا عمومی خاکہ ایک چوک کی شکل میں ڈیزائن کیا گیا تھا ،جس کے چاروں طرف آٹھ کلومیٹر کی دیوار تھی، جس میں دفاعی میناروں سے قلعہ بند تھا ۔ دیوار کے جنوبی کونے میں نمرود کی ایک پہاڑی ہے۔
تاریخ
نمرود شہر کی بنیاد تیرھویں صدی قبل مسیح کی ہے۔ اسٹوونی بروک یونیورسٹی میں عراقی آثار قدیمہ کے ماہر حیدر ہمدانی کا کہنا ہے کہ نمرود شہر آشوری دورحکومت میں دار الخلافہ تھا۔
آشوریوں کا دوسرا دور شلما نضر اول سے شروع ہوتا ہے جو آشور ابلت کا پوتا تھا اور مصری فرمانروا رعمیس دوم کا ہم عصر تھا۔ اس نے کلاخ کو اپنا پایا تخت بنایا اور سلطنت کو وسیع کرنے کی کوشش کی۔ اس نے حتیوں اور میتانیوں کو شکست دے کر ان کے وسیع علاقہ پر قبضہ کر لیا اور تیس سال حکومت کرنے کے بعد 1246 ق م میں اس کی موت واقع ہو گئی۔ اس کے مرنے کے بعد آشوری ریاست کمزور ہو گئی۔ مگر ڈیڑھ سو سال کے بعد تلگت پلاسر اول (1115 ق م تا 1103 ق م) کے دور سے پھر اس نے طاقت پکڑی۔
اس شہر کی بنیاد بادشاہ شلما نضر اول نے رکھی تھی لیکن یہ اس وقت تک زیر آب رہا جب تک کہ بادشاہ آشور ناصرپال دوم نے اسے اپنی شاہی رہائش گاہ اور آشوری ریاست کے لیے فوجی دارالحکومت کے طور پر منتخب نہیں کیا۔اس نے اس کی تجدید و تعمیرکی اور اس کے قلعے اور شہر کے باہر کی دیواروں کو مکمل کیا ، پھر اس کے بعد آنے والےبادشاہوں نے اس کام کو مکمل کیا۔ یوں یہ شہر تاریخ و تمدن اور بہت سی ثقافتوں کے ساتھ تاریخ کا حصہ بنا ۔
اس شہر کا تذکرہ ماہرین آثار قدیمہ نے 1820 میں کرنا شروع کیا، پھر اس کے بعد کئی دہائیوں بعد غیر ملکی محققین نے اس کی تلاش شروع کی اور کھدائی کرنے لگے۔
عماد بعو
ابو علی