یوم عاشورا رکضہ طویریج میں شامل لاکھوں عزاداروں کا امام زمانہ ؑکو پرسہ
جلوس عزاء رکضہ طویریج میں شامل لاکھوں عزادار تیزی کے ساتھ حرم امام حسین ؑ سے ماتم کرتے ہوئے گزر تے ہیں، دسیوں لاکھ عزاداروں کے اس جلوس میں شامل عزادار تیزی سے روضہ مبارک کی طرف آتے ہیں لہذا اس جمع غفیر کی منظم انداز نقل وحرکت کے لیے حرم امام حسین ؑ و حرم حضرت عباس ؑنے بڑے پیمانے پر انتظامات کر رکھے ہیں کئی طویل لائنوں پر مشتمل انسانی زنجیر سوگواروں کے راستہ کی تعیین، نقل وحرکت اور مدد کے لیے بہت مفید ثابت ہو رہی ہے۔ حرم امام حسین کی انتظامیہ نے طویریج مارچ کے داخل اور خارج کے لیے مرکزی دروازوں اور راستے کا پہلے سے تعیین کر دی تھیں کہ جہاں سے یہ انسانی جم غفیر گزرتا ہے ۔ کربلا میں آج ظہر کے بعد برآمد ہونے والے دنیا کے سب سے بڑے اور سب سے منفرد جلوس عزاء میں شامل عزادار حرم امام حسین ؑ کے مرکزی دروازے باب قبلہ اور باب قاضی حاجات ست داخل ہوتا ہےاور بین الحرمین سے ہوتا ہوا حرم حضرت عباس میں داخل ہوتا ہے
امام حسین(ع) نے کربلا کے میدان میں ھل من ناصر ینصرنا، ھل من ذاب فیذب عنا... کی صدا بلند کی تھی لہٰذا عزاء طویریج میں شامل عزادار جلوس کی ابتداء سے ہی لبیک یا حسین.... لبیک یا حسین.... یا لثارات الحسین۔۔۔۔۔۔ کہتے ہوئے امام حسین(ع) کے روضہ مبارک کی طرف دوڑتے ہوئے آ رہے ہیں اور اس جلوس میں شامل ہر شخص کی ظاہری باطنی کیفیت اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ اگر وہ دس محرم 61ہجری کربلا میں ہوتا تو امام حسین(ع) کے استغاثہ پہ اسی طرح لبیک کہتے ہوئے اور دوڑتے ہوئے آتا اور امام حسین(ع) کو دشمنوں کے درمیان کبھی بھی تنہا نہ چھوڑتا۔ واضح رہے کہ امام حسین(ع) کی مدد و نصرت کے عہد کی تجدید کے حوالے سے محبان اہل بیت میں بہت سے طریقے اور رسومات معروف ہیں لیکن ان سب میں جو حیثیت عزاءِ طویریج (ركضة طويريج) کو حاصل ہے وہ کسی کو بھی حاصل نہیں۔ ویسے تو اس جلوس عزاء میں اکثریت عراقی مومنین ہی کی ہوتی ہے البتہ اس سال دوسرے ممالک سے تعلق رکھنے والے مومنین کی بہت بڑی تعداد نے بھی اس جلوس میں شرکت کی۔ سن1885ء ((1303هــ)) سے شروع ہونے والا یہ جلوس عزاء اس وقت دنیا میں امام حسین(ع) کی یاد میں نکلنے والا سب سے بڑا جلوس ہے کہ جو تمام اقوام عالم کے لیے تاریخی لمحہ فکریہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ دس محرم کو ظہر کے بعد ضریح مبارک امام حسین(ع) سے تقریبًا 5کلو میٹر کے فاصلے پر مشرقی سمت میں منطقہ (قنطرة السلام) ہے طویریج شہر کی طرف سے کربلا آتے ہوئے قنطرة السلام کربلا کی حد شمار ہوتا ہے اور موکب عزاء طویریج یا رکضة طویریج کے نام سے برآمد ہونے والے جلوسِ عزاء کی ابتداء اسی جگہ سے ہوتی ہے۔ اس جلوس عزاء کی سرپرستی طویریج کے علماء دین اور طویریج میں رہنے والے قبیلہ آل عنبر، قبیلہ بنی حسن، قبیلہ آل فتلہ، قبیلہ دعوم اور قبیلہ اشرف کے بزرگ کرتے ہیں اور اس جلوس میں طویریج شہر کے تقریبا سب لوگ شرکت کرتے ہیں، اہل طویریج کے علاوہ بھی لاکھوں مومنین اس جلوس عزاء میں شریک ہوتے ہیں۔ اس منفرد جلوس میں شرکت کرنے والے ظہر سے پہلے قنطرة السلام پہ جمع ہو جاتے ہیں اور یہاں آنے والوں کی اکثریت گھروں سے پیدل ہی نکلتی ہے اور دسیوں کلو میٹر کا فاصلہ گھروں سے پیدل طے کر کے یہاں پہنچتی ہے
ابراہیم العوینی
ابو علی