آنکھوں کی ٹھنڈک

2022-04-25 15:28

قال تعالى: وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا                           الفرقان الآية  74

ترجمہ : اور جو دعا کرتے ہیں: اے ہمارے پروردگار! ہمیں ہماری ازواج اور ہماری اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا امام بنا دے۔

جب بیوی اور اولاد انسان کے آنکھوں کا قرار ہو جائے تو حقیقت انسان اطمینان و سلامتی سے پرحیات سائے میں زندگی بسر کرتا ہے

جی ہاں انسان اپنی درست تربیت  صحیح راہنمائی اور جازب اسلوب سے اپنی بیوی اور بچوں کے حقوق کا  اعتراف کرتے ہوئے ان میں سے ہر ایک کے حق کا خیال رکھتا ہے کسی اور کی حق تلفی کئے بغیر

اور جب شوہر کو اپنا حق ملے جیسے گھر کی سرپرستی بیوی کا اس کے اجازت کے بغیر گھر سے نہ نکلنا ۔اور شوہر بیوی کو کسی کام سے منع کریں تو وہ رک جائے اور اسی طرح بیوی جب اپنا حقوق پاتی ہیں جیسے شوہر اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں رہائش اور کھانے پینے کا انتظام کریں اپنی حثیت کے مطابق ،تو تمام تر پریشانی اسطرح ختم ہوجائے گی جسطرح خزاں کے موسم میں درختوں سے پتہ جھڑتے ہیں ۔اور اس کا مثبت اثر بچے پر پڑھتا ہے تویوں گھر جنت بن جاتا ہیں

واضح رہے کہ بچے کی تربیت بچپنے سے ہی شروع ہوتی ہیں اور ایک نیک سیرت ماں کی زمہ داری یہی بنتی ہے کہ وہ اپنے بچے کی ایک مثالی تربیت کریں

اور وہ والدین کی پر سکون چھاوں میں پروان چڑ کرثمر آور درخت بن جاتا ہے لیکن اگر میاں بیوی کے درمیان اختلاف اور جھگڑے معمول بن جائے تو یہی (بچہ ) درخت ضرر رساں ہوتا ہے بلکہ غیر مفید بن جاتا ہے  

ہم میں سے کون ہے ؟ جو نہیں چاہتاہے کہ اس کا بیٹا ذمہ دار نفع بخش اورعہد ساز ہو تو آئے جانتے ہیں کہ اس طرح کا انسان کیسے بنتا ہے

اگر ہم نفع آور نسل کی تربیت کرنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ شروع سے ہی  اہتمام کریں اور انہیں توجہ دیں پھر اللہ پر توکل کر کے انکی کامیابی کے لئے اللہ تعالی سے مدد طلب کرتے رہیں ۔اپ کے بیٹے کی نسبت آپ پر واجب ہے کہ  آپ اس کے ساتھ اچھا برتاو کریں   اور آپ کا اس پر سب سے اہم احسان یہی ہے کہ آپ اس کو شفقت ایسے ہی دیں جیسے غذا دیتے ہیں  ،اسکی عزت کریں اس پر نگاہ رکھیں لیکن جاسوسی کے انداز میں نہیں   راہ  ہدایت کی جانب اسکی رہنمائی کریں لیکن دباؤ کے بغیر اور اسے گمراہی و انحراف کے راستے سے باز  رکھیں لیکن دہمکانے یا زبردستی اور جبر کے بغیر

بلاشبہ والد اپنے بچے کی تعلیم میں کامیابی کے خواہاں ہوتا ہے اور وہ ہمیشہ اللہ تعالی سے  اسکی کامیابی و ثابت قدمی کی دعا کرتا ہیں۔اسے انعام دینے کی وعدے کرتا ہے اگر وہ تعلیم میں کامیابی حاصل کریں اور اگر وہ تعلیم میں سستی کریں تو  دہمکاتا ہے اسکی سرزنش کرتا ہے  لیکن سوال  یہ ہے کہ آپ اپنے بیٹے کی کونسی کامیابی چاہتا ہے؟ اپنی اولاد کی کس چیز میں  استمرار و ارتقاء کے تمناء رکھتے ہیں؟

ٹھہرے:سوچھیں اے مہربان  و ہمدرد باپ: بات یہ نہیں ہے کہ تعلیم میں کامیابی و ناکامی ہو  بلکہ یہ دیکھیں کہ وہ زندگی میں کتنا کامیاب و ناکام ہوتا ہے 

اپنے بیٹے کی اس چیز میں مدد کریں جو اس کا شوق ہو  ۔نہ کہ آپ اس پر کوئی چیز زبردستی مسلط کریں ۔آپ اپنے ماضی کے اندرے کو اپنے بچے کے مستقبل کی روشنی پر مسلط نہ کریں کیونکہ اولاد آپ کے بعدکے  آنے والے زمانے کے لئے خلق ہوئی ہیں لہذا آپ کا تعاون اسکی دلچسپی کے مطابق  ہونا چاہیے َ

ہمیں چاہیے کہ اس پر آشوب دور میں اپنے بچوں کی درست تربیت کرنے کی ضرورت ہے  ہم اپنے بچوں کی درست تربیت کریں اور معاشرے کو ایسی پختہ ایمان نسل دیں جو حق پرثابت قدم، بہترین آدب و اخلاق سے مذین ہو  اور دوسروں کی حقوق کا تحفظ کرنے والے ہو، جیسے اقلیتوں کے حقوق  اور انکے حقوق جو ان سے نظریاتی طور پر اختلاف رکھتے ہے  اور حق کی پرچم کو پوری قوت کے ساتھ بلند کرئے

اور ہم تربیت کی اس بلند سطح پر اس صورت میں پہنچ سکتے  ہیں  جب والدین وقت کو منظم کریں اور تربیت کے  ان اصولوں کا پابند ہو جو سب کے ہاں تسلیم شدہ ہو اورنفسیاتی قواعد اور اسلام  کے بنیادی اصولوں پر ہو تاکہ بچہ  پوری طاقت ،دلچسپی اور قوت سے ہدف کی طرف بڑھے جسکے زریعے سے وہ  مطلوبہ ہدف تک پہنچ سکیں

واضح رہے کہ  والدین اور اولاد کے درمیان رشتہ تمام انسانی رشتوں سے بلندترین رشتہ ہے اور باپ بیٹا ہر دو  نظر رحمت سے مربوط ہے  والد دیکھتا ہے کہ اس کا بیٹا اس کا ٹکرا ہے  جیسا کہ امیرالمومنین  ع  اپنے فرزند سے گفتگو کے درمیان فرمایا اے (حسن ) میں آپ کو اپنا حصہ سمجھتا ہوں بلکہ کل سمجھتا ہوں حتی کہ اگر کوئی چیز آپ کو پہنچ تو  اسی آن مجھے پہنچاتا ہے یہاں تک کہ اگر آپ کو موت آئی تو ایسا ہے جیسا مجھے آئی  ۔۔۔۔بیٹا دیکھتا ہے کہ والد اس کے اس دنیاء میں آنے کا سبب ہیں لہذا اس وجہ سے وہ اس تعلق کو فطری و تکوینی قرار دیتا ہے لہذا ایک دوسرے سے تعلق ختم کرنا ممکن نہیں ہے  برخلاف اس تعلق کے جو کسی اور سبب سے بنا ہو جیسے دوستی کا رشتہ  یا کمپنی میں شراکت کا رشتہ یہ سب ختم ہو سکتا ہے  لیکن ۔

اس لئے اسلام نے والد پر فرض کیا ہے  کہ  اپنے بچہ کی تربیت آنے والے زمانے کی اصولوں کے مطابق کریں تاکہ اسے دنیاء و آخرت کی سعادت ملے وگرنا اسکی اولاد اس کے لئے وبال جان بن جائے گی اور ندامت و پشیمانی اسکا مقدر ہوگا

بیٹا والد کی آنکھوں کا اس وقت  ٹھنڈک قرار ہو گا جب والد اسکی تربیت مکارم اخلاق کے اصولوں پر کی ہو گی اور اگر والد نے اپنے بچے کی  بری تربیت کی ہو تو اپنے علاوہ کسی اور پر ملامت نہ کریں

گلاب کا پھول اگائے گا تو گلاب نکلے گا اور اگر کانٹا بویا ہے تو وہی کاٹنا ہوگا 

کچھ لوگ بچھا کر کانٹے پھولوں کی توقع رکھتے ہیں                           
شعلوں کو ہوائیں دے دے کر ساون کی توقع رکھتے ہیں

شکوۂ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلائے جاتے

العودة إلى الأعلى