سلام کےآداب اور احکام
کالم نگار روشن علی
جس موضوع پربحث کرنے کا اردہ کیا ہےاس موضوع سےہرایک شخص چاہےچھوٹاہویابڑامردہویاعورت سب ہی بخوبی آگاہ ہےکیونکہ ایک مسلمان سلام کےالفاظ کوایک دن میں بہت مرتبہ تکرارکرتاہےچاہےگھرمیں داخل ہوتےوقت، کسی سےملاقات ہویاکسی محفل میں جاناہوسلام کےالفاظ تکرارکرتاہے۔
لہذاسلام کی اہمیت جوروایات وآیات مجیدہ میں بیان کی گئی ہےمورد ابتلااورسلام ایک موثرتربیتی پہلورکھنےکی وجہ سےسلام کےموضوع کوانتخاب کیاگیاہے۔
ہم اس بات سےآگاہ ہیں کہ تمام عالم کے اقوام جب ایک دوسرے سےملاقات کرتےہیں توایک دوسرےسےمحبت کااظہاریا ایک دوسرےکوخوش آمدیدکہنے کےلیےکبھی خاص الفاظ استعمال کرتےہیں اورکبھی عملی صورت میں خوش آمدیداورمحبت کااظہارکیاجاتاہے۔لہذااس سےمعلوم ہوتا ہےکہ سلام ایسےامورمیں سےنہیں ہےجوظہوراسلام سےپہلےموجودہ تھےبلکہ سلام کےمانندکچھ چیزیں سابقہ اقوام اورملل میں موجودتھیں دین اسلام نے ان بہترین چیزوں کوباقی رکھالیکن جوان میں خامیاں تھیں ان کودورکیااوران میں خوبیوں کااضافہ کیا۔سلام کےبارےمیں اس مختصرمقالہ میں جوبحث ہو گی وہ ایک مقدمہ دوفصل اورخاتمہ پرمشتمل ہوگی۔
اسلام میں سلام کی اہمیت،فضیلت اور ثواب
سلام کی فضیلت اور اہمیت کے بارے میں کتب احادیث میں کثیرتعداد میں روایات موجود ہیں کچھ روایات کو اس مقام پر ذکر کردیتےہیں امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہےکہ جو شخص السلام علیکم کہتا ہےاس کا ثواب دس نیکیاں ہےاگر کوئی شخص سلام علیکم ورحمۃاللہ کہتا ہےتو اس کا ثواب بیس نیکیاں ہےاگر کوئی شخص سلام علیکم و رحمۃاللہ و برکاتہ کہتا تو اس کا ثواب تیس نیکیاں ہے۔
سلام کرنے کا فلسفہ اور معاشرے پر اس کے اثرات۔
وہ آداب اور اخلاقیات اسلامی جس کے بارے میں قرآن مجید نے تاکید فرمائی ہے اور روایات میں بھی اس کی اہمیت بیان کی گئی ہےوہ آداب اسلامی سلام کرنا ہےجس کے فرد اور معاشرے پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں معاشرے میں ایک پر امن فضا،خوشی،محبت،ہمدردی،ادب اور تواضع کا ماحول بن جاتا ہے۔
سلام کے اثرات روایات کی روشنی میں
نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم سے مروی ہے:ان موجبات المغفرۃبذل السلام و حسن الکلام۔
ترجمہ: مغفرت کے اسباب میں سے سلام کرنا اور بہترین کلام کرنا ہے۔
وقال صلی اللہ علیہ والہ وسلّم ایضا: البادیء بالسلام بریء من الکبر۔ترجمہ: سلام کی ابتدا کرنے والاتکبر سے محفوظ رہتا ہے۔وقال صلی اللہ علیہ والہ وسلّم ایضا :اذادخل احدکم بیتہ فلیسلم فانہ ینزلہ البرکۃو تونسہ الملاءکتہ۔ ترجمہ :جب آپ میں سے کوئی اپنے گھر میں داخل ہو اور داخل ہوتے وقت سلام کر لےتو سلام کرنے سے گھر میں برکت نازل ہو تی ہیں ور ملائکہ اس گھر کومحبوب رکھتے ہیں۔
عن ابی عبداللہ علیہ السلام ان اباءہ قال:ان من التواضعان یرضیالرجل بالمجلس دون المجلس و ان یسلم علی من یلقیٰ۔ ترجمہ: تواضع میں سے یہ ہے کہ شخص کسی محفل میں ایسی جگہ پر بیٹھ جائے جو اس کے شان سے کم ہواور سلام کرے ہر اس شخص کو جس سے ملاقات ہو۔
قال وسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم والذی نفسی بیدہ لا تدخلون الجنۃحتی تومنوا الا تومنون حتی تحابواافلا ادلکم علی عمل اذا عملتموہ تحابکم قالوا بلی یا رسول اللہ قال افشوا السلام بینکم۔
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایاجس ذات کے قبضہ قدرت میں میری جان ہےآپ جنت میں داخل نہیں ہوں گےجب تک مومن نہ بن جائے اور آپ مومن نہیں بن سکتےجب تک ایک دوسرے ساتھ محبت نہ کریں پھر فرمایا آپ کو ایسے عمل کے بارے میں نہ بتاؤں جس کو انجام دینے سے آپ ایک دوسرے سے محبت کریں گے کہا! بلکل یا رسول اللہ بیان فرمائے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا آپس میں سلام کرنے کو فروغ دو۔
الا اخبرکم بخیراخلاق اہل الدنیا و الآخرہ قالوا بلی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم فقال افشاء السلام فی العام۔ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم سے روایت ہے کیا میں آپ کو اہل دنیا و آخرت والوں کے بہترین اخلاق سے آگاہ نہ کر لوں ؟سب نے کہا بلکل آگاہ کریں پھر فرمایا دنیا میں سلام کو فروغ دو۔
عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم اذادخلتم بیوتکم فسلموا علی اھلھافان الشیطان اذااسلم احدکم لم یدخل معہ فی بیتہ۔ ترجمہ:رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم سے روایت ہےجب آپ اپنے گھر میں داخل ہوں تو آپ اھل خانہ پر سلام کرے کیونکہ آپ میں سے کوئی سلام کرتا ہے تو شیطان اس کے ساتھ اس کے گھر میں داخل نہیں ہوتا۔
مذکورہ روایات میں سلام کے اثرات میں سے یہ ہے کہ سلام کرنا سبب مغفرت،سبب نزول رحمت،سبب تواضع،سلام کے ذریعے سے محبت پیدا ہوتی ہےسلام بہترین اخلاقیات میں سےہےسلام کرنے سے شیطان گھر میں داخل نہیں ہوتا۔
سلام نہ کرنے والا شخص اسلام کی نظر میں۔
سلام نہ کرنے والے شخص کے بارے میں روایات میں مذمت وارد ہوئی ہےکچھ روایات کو ذکر کرتے ہیں۔
عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم : ان اعجن الناس من عجز من الدعاوان ابخل الناس من بخل بالسلام۔ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم سے روایت ہے کہ لوگوں میں سے عاجز ترین شخص وہ ہے جو دعا سے عاجز ہو اور بخل ترین شخص وہ ہے جو سلام میں بخل کرے۔
عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم : الملائکۃ تعجب من المسلم یمر علی المسلم فلا یسلم علیہ۔
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم سے روایت ہے کہ ملائکہ تعجب کرتے ہیں اس مسلمان پر جس کا کسی مسلمان سے گزر ہو لیکن اس پر سلام نہ کرے ۔
عن ابی عبد اللہ علیہ السلام قال علیہ السلام قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم : من بدا بالکلام قبل السلام فلا تجیبوہ۔ ترجمہ:امام جعفر صادق علیہ السلام روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا کہ جو شخص سلام سے پہلے کلام کرے اس کو جواب نہ دو۔
قال علیہ السلام قال رسول اللہصلی اللہ علیہ والہ وسلّم : لا تدع الی طعامک احدا حتی یسلم۔
ترجمہ: امام جعفر صادق علیہ السلام نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم سےروایت کرتے ہیں کہ تب تک کسی کو کھانے کی دعوت نہ دو جب تک وہ سلام نہ کرے۔
روایات سے معلوم ہوا کہ سلام نہ کرنے والا شخص بخیل ہے اس پر ملائکہ تعجب کرتے ہیں اگر وہ بات کرے تو اس کو جواب نہ دیا جائےاور سلام نہ کرنے والے شخص کو کھانے کی دعوت نہ دی جائے ۔
سلام کے آداب
سلام کرنے کی ابتداء کس شخص سے کرنی چاہئے؟ جن اشخاص کو سلام کرنے کی ابتداء کرنی چاہئے ہم ان کو روایات کی روشنی میں بیان کرتے ہیں ۔
محمد بن یعقوب عن محمد بن یحیٰ عن احمد بن محمد عن الحسین بن سعیدعن النصر بن سویدعن القاسم عن سلیمان عن جراح المدائنی عن ابی عبد اللہ علیہ السلام قال یسلم صغیر علی الکبیر والمار علی القاعد والقلیل علی الکثیر۔
ترجمہ: حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ جو چھوٹا ہو اس کو بڑے کو سلام کرنا چاہئےاور جو گزر رہا ہو اس کو بیٹھے ہوئے شخص پر سلام کرنا چاہئےاور جو تعداد میں کم ہو اسے تعداد میں زیادہ پر سلام کرنا چاہیے۔
و عن علی ابن ابراہیم عن صالح بن السندی عن جعفر بن بشیر عن عبنسہ بن مصعب عن ابی عبد اللہعلیہ السلام قال صلی اللہ علیہ والہ وسلّم القلیل یبدؤون الکثیر بالسلام و الراکب یبداء الماشیی و اصحاب البغال یبدؤون اصحاب الحمیرو اصحاب الخیل یبدؤون اصحاب البغال۔
ترجمہ: امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ جو تعداد میں تھوڑی ہیں وہ ان پر سلام کرےجو تعداد میں زیادہ ہیں اور سوار شخص پیادہ شخص پرسلام کرےاور خچر پر سوار شخص گدھے پر سوار شخص کو سلام کرے اور گھوڑے پر سوار شخص خچر والے شخص پر سلام کرے۔
ان روایات کی روشنی میں یہ بات معلوم ہو گی کہ جس شخص کے لیےسلام کرنے میں زیادہ آسانی ہو وہ دوسرے شخص کو سلام مثلا جیسے تیز رفتار سواری پر سوار شخص کو سلام کرنے چاہیے اور یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ یہ حکم استحبابی ہے کہ فلان شخص ابتداءکرے سلام میں وجوبی نہیں ہے۔
غنی اور فقیر پر سلام کس طرح کرنا چاہئے؟اسلامی آداب میں سے ہے کہ انسان غنی اور فقیر کو ایک جیسا ہے سلام کرے سلام کرنے میں فرق نہ کرے جس طرح روایت میں ہے ۔
قال الشیخ الصدوق :حدثنا الحسین بن احمد بن ادریس قال حدثنا ابی عن جعفر بن محمد بن مالک الکوفی قال حدثنی محمد بن احمدالمدائنی ون فضل بن کثیرعن علی بن موسیٰ الرضاصلی اللہ علیہ والہ وسلّم :من لقی فقیرا مسلما فسلم علیہ خلاف سلامہ علی الغنی لقی اللہ عزوجل یوم القیامۃ و ھو علیہ غضبان۔
ترجمہ: جو کسی مسلمان فقیر کے ساتھ ملاقات کرے اور سلام کرے لیکن فقیر شخص کو جو سلام کرے وہ مخالف اس سلام سے جو غنی کو کیا جاتا ہے"مثلا فقیر کو فقط سلام علیکم کرے اور غنی کو سلام علیکم و رحمۃ اللہ " تو ایسا شخص اللہ سے ملاقات اس طرح کرے گا کہ اللہ اس پر غضبناک ہو گا۔
سلام بلند آواز سے کرنا چاہیے ۔
جب بھی کوئی شخص کسی شخص کو سلام کرے تو بلند آواز سے سلام کرے جس طرح روایت میں وارد ہوا ہے :
عن محمد بن یعقوب عن عدہ من اصحابنا عن اصحابنا عن سھل بن زیاد عن جعفر بن محمد الاشعری عنن ابن القداح عن ابی عبد اللہ علیہ السلام قال اذا سلم احدکم فلیجھر بسلامہ ولا یقول سلمت فاذا رد احدکم فلیجھر بردہ۔
ترجمہ: امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ میں سے کوئی سلام کرے تو بلند آواز سے سلام کرے اور یہ نہ کہے کہ میں نے سلام کہا آ پ نےجواب نہیں دیا کیونکہ ہو سکتا ہے کہ انہوں نے سلام کیا ہی نہ ہو اور سلام کا جواب دےوہ بھی بلند آواز سے دے ۔