فضائل علي عليہ السلام بزبان علي عليہ السلام

2022-02-15 10:20

شيخ شہباز حسين مہراني

اس کائنات ميں حضرت رسالتمآب ﷺ کے بعد زندگي کے ہر شعبے ميں ،ہر ابعاد ميں کامل ترين شخصيت نظر آتي ہے تو وہ صرف دلوں کي محبتوں کا مرکز، رسالتمآب ﷺ کي امانتوں کا محافظ ، علم ِ نبوت کا وارث ، انبياء کي ميراث کا امانتدار ،خدا کي زمين پر خدا کا امين ، خدا کي مخلوق پر خدا کي حجت ،حق کا کھلا راستہ ،مؤمنين کا قائد، ہر مؤمن و مؤمنہ کا مولا، اطاعت گزاروں کا نور، رسول ِ خدا ﷺکا بھائي ، ہدايت کي درخشندہ علامت ،اسلام کا ستون، تاريخ ميں روشن چراغ ، سعادت کا بلند پرچم ، اوليائے الہي کا پيشوا، اميرالمؤمنين علي ابن ابي طالب عليھماالسلام ہي ہيں۔

مولا علي عليہ السلام کي شخصيت کو صرف اللہ اور اس کے رسول ﷺ جانتے ہيں کسي بشر کے بس کي بات نہيں کہ وہ مولا علي عليہ السلام کي بلندي فکر اور تابناک سوچ تک پرواز کر سکے کيونکہ اس پر گواہ رسالتمآب ﷺ کا يہ فرمان ہے کہ

يَا عَلِيُّ۔۔مَا عَرَفَكَ‏ إِلَّا اللَّهُ وَ أَنَا

اے علي ؑ ۔۔تجھے کسي بشر نے نہيں پہچانا سوائے ميرے اور اللہ کے۔(مختصر البصائر ؛ ص336)

يہاں پر ہم مولا علي عليہ السلام کے فضائل کے چند موتي نہج البلاغہ سے قارئين کي نظر کر رہے ہيں۔

1:مؤمنِ اول

امير المؤمنين عليہ السلام کي نماياں ترين خصوصيات ميں سے ايک يہ ہے کہ آپ ؑ اس وقت نبي ﷺ پر ايمان رکھتے تھے کہ جب اس کائنات ميں آپ عليہ السلام اور حضرت خديجہ سلام اللہ عليھا کے علاوہ کسي بشر نے ايمان نہيں لايا تھااور اسلام صرف رسول خدا ﷺ اور ام المؤمنين خديجہ سلام اللہ عليھا کي گھر کي چار ديواري تک تھا۔

اسي بات کي طرف اشارہ کرتے ہوئے مولا علي عليہ السلام اپني زبان ِ مبارک سے ارشاد فرماتے ہيں:

فَأَنَا أَوَّلُ‏ مَنْ‏ آمَنَ بِهِ ۔۔۔۔ فَأَنَا أَوَّلُ‏ مَنْ‏ صَدَّقَه‏

ميں سب سے پہلے اس پر ايمان لانے والا ہوں اور ميں سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ کي تصديق کرنے والا ہوں۔(نہج البلاغہ خطبہ 71)

2:نورِ وحي کو ديکھنا

اس کائنات ميں صرف ايک ہي ہستي ہے جس نے وحي رسالت کے نور کو ديکھا اور وہ ہيں نفس ِ رسول ﷺ علي ابن ابي طالب عليہ السلام يہ فضيلت کسي بھي بشر کو حاصل نہيں ہوئي اسي بات کو آپ عليہ السلام واضح انداز ميں بيان کرتےہوئے فرماتے ہيں :

أَرَى نُورَ الْوَحْيِ‏ وَ الرِّسَالَةِ وَ أَشُمُّ رِيحَ النُّبُوَّةِ

ميں نور ِ وحي اور رسالت کو ديکھتا تھا اور نبوت کي خوشبو سونگھتا تھا۔(نہج البلاغہ خطبہ 192)

اس قول کي تصديق خود رسالتمآب ﷺ نے فرمائي :

 إِنَّكَ تَسْمَعُ مَا أَسْمَعُ وَ تَرَى مَا أَرَى إِلَّا أَنَّكَ لَسْتَ بِنَبِيٍّ وَ لَكِنَّكَ لَوَزِيرٌ وَ إِنَّكَ لَعَلَى خَيْر

(اے علي ؑ )جو ميں سنتا ہوں تم بھي سنتے ہو اور جو ميں ديکھتا ہوں تم بھي ديکھتے ہو ،فرق اتنا ہے کہ تم نبي نہيں ہو بلکہ (ميرے )وزير و جانشين ہو اور يقينا بھلائي کي راہ پر ہو۔(نہج البلاغہ خطبہ 192)

3:علم ِ امام عليہ السلام

وہ ہستي جس نے رسول ِ خدا ﷺ کي گود ميں تربيت پائي ہو اس کا علم کتنا ہوگا يہ کسي بشر کے عقل ميں آنےوالي بات نہيں ہے،علم امام عليہ السلام کو صرف خدا اور اس کے رسول ﷺ جانتے ہيں يہي سبب تھا کہ جس کي وجہ سے آپ عليہ السلام منبر کوفہ پر بيٹھ کر سلوني کا دعوي کرتے تھے۔

آپ عليہ السلام اول و آخر تھے کہ جس نے اس کائنات ميں سلوني کا دعوي کيااور اس دعويٰ کو سچ ثابت کر کے دکھايا چنانچہ آپ عليہ السلام فرماتے ہيں :أَيُّهَا النَّاسُ سَلُونِي قَبْلَ‏ أَنْ‏ تَفْقِدُونِي‏ فَلَأَنَا بِطُرُقِ السَّمَاءِ أَعْلَمُ مِنِّي بِطُرُقِ الْأَرْض‏

اے لوگو! جو چاہو مجھ سے پوچھ لو قبل اس کے کہ مجھے نہ پاؤ ميں آسمان کے راستوں کو زمين کي راہوں سے بہتر جانتا ہوں۔(نہج البلاغہ خطبہ189)

4:خلافت کا حق دار

رسول ِ خدا ﷺ نے مختلف مقاما  ت پر اپنے جانشين کا تعارف کرايا ، دعوت ذوالعشيرہ سے لے کر غدير خم کے اعلان تک ،مختلف الفاظ ميں کبھي فرمايا کہ تم ميرے وزير ہو ،تم ميرے جانشين ہو تم ميرے بعد امت کے امام ہو ،تم مؤمنين کے امير ہو ، اسي خلافت کي طرف مولا علي عليہ السلام ارشاد فرماتے ہيں:لَقَدْ عَلِمْتُمْ‏ أَنِّي‏ أَحَقُ‏ النَّاسِ بِهَا مِنْ غَيْرِي‏

تمہيں معلوم ہے کہ ميں تمام لوگوں ميں سب سے زيادہ خلافت کا حق دار ہوں ۔ (نہج البلاغہ خطبہ 74)

5:شہادت کا شوق

تاريخ ِ اسلام گواہ اور شاہد ہے کہ رسول خدا ﷺ کے دور ميں لڑي جانے والي جنگوں کا فاتح صرف صاحب ذوالفقار ہي  تھے اور جس کي فتح کا نعرہ ملائکہ نے لگايا کہ لافتي الا علي لاسيف الا ذوالفقار وہ امام ارشاد فرماتے ہيں :

وَ اللَّهِ لَابْنُ أَبِي طَالِبٍ آنَسُ بِالْمَوْتِ مِنَ‏ الطِّفْلِ‏ بِثَدْيِ‏ أُمِّه‏

اللہ کي قسم ابو طالب کا فرزند موت سے اس سے زيادہ مانوس ہے جتنا بچہ سرچشمہ حيات سے مانوس ہوتا ہے ۔(نہج البلاغہ خطبہ5)

دنيا کي قيمت.6

 امام علي عليہ السلام نے اپني زندگي ميں جو بھي کام کيا وہ صرف اور صرف  اللہ کي رضا کے ليے کيا ، چاہے وہ مصليٰ عبادت ہو يا ميدان جنگ ہو اسي وجہ سے جنگ خندق ميں اللہ تعالي ٰ نے آپ عليہ السلام کي ضرب کو ثقلين کي عبادت سے افضل قرار ديا۔ امام عليہ السلام نے اس دنيا کو اپني زندگي ميں طلاقيں ديں،اور ارشاد فرمايا :

يَا دُنْيَا يَ غُرِّي غَيْرِي اے دنيا جاکسي اور کو دھوکا دے ۔

اسي دنيا کي پستي کي طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہيں:

وَ قَالَ ع وَ اللَّهِ لَدُنْيَاكُمْ هَذِهِ أَهْوَنُ فِي عَيْنِي مِنْ عِرَاقِ خِنْزِيرٍ فِي يَدِ مَجْذُومٍ

خدا کي قسم  يہ تمھاري دنيا ميري نظر ميں کوڑھي کے ہاتھ ميں سور کي ہڈي سے بھي بدتر ہے۔(نھج البلاغہ حکمت 236)

7:کردار گفتار کے عين مطابق تھا

امام عليہ السلام نے اپني زندگي ميں جو بھي گفتگو کي اسي کے مطابق عمل ہوتا تھا اور جس نے بھي آپ عليہ السلام کي زندگي کا مطالعہ کيا ہے اس کو کبھي بھي کردار اور گفتار ميں فرق نظر نہيں آئے گا ۔

امام علي عليہ السلام اس بات کو واضح الفاظ ميں بيان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہيں :

وَ اللَّهِ مَا أَحُثُّكُمْ‏ عَلَى طَاعَةٍ إِلَّا وَ أَسْبِقُكُمْ إِلَيْهَا وَ لَا أَنْهَاكُمْ عَنْ مَعْصِيَةٍ إِلَّا وَ أَتَنَاهَى قَبْلَكُمْ عَنْهَا

اے لوگو ! قسم بخدا ميں تمھيں کسي اطاعت پر آمادہ نھيں کرتا مگر يہ کہ تم سے پہلے اس کي طرف بڑھتا ہوں اور کسي گناہ سے تمہيں نہيں روکتا مگر يہ کہ تم سے پہلے اس سے باز رہتا ہوں۔(نهج البلاغةخطبہ 175)

يہ چند فضائل کے نمونے تھے جن کو نہج البلاغہ ميں امير المؤمنين عليہ السلام نے بيان فرمايا ہے اوربہت سے موارد کو ہم ذکر نہيں کرسکے۔

العودة إلى الأعلى