عراق نے 2003 کے بعد اسمگل کیے گئے 23 ہزار سے زائد قدیم نوادرات بازیاب کر لیے

2025-03-04 12:34

بغداد: عراق کی عدلیہ نے تصدیق کی ہے کہ 2003 کے بعد ملک سے اسمگل کیے گئے 23 ہزار سے زائد قدیم نوادرات واپس حاصل کر لیے ہیں

مرکزی تفتیشی عدالت کے جج نبیل کریم کے مطابق، آثارِ قدیمہ کی اسمگلنگ ایک بڑا چیلنج ہے کیونکہ یہ جرائم بین الاقوامی منظم گروہوں کے ذریعے انجام دیے جاتے ہیں۔

جج نبیل کریم نے نوادرات کی غیر قانونی تجارت میں اضافے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا کہ آثارِ قدیمہ کے مقامات پر نگرانی کا فقدان، غربت اور بے روزگاری مقامی افراد کو ان نوادرات کو فروخت کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ ان جرائم میں ملوث افراد کو سخت سزائیں دی جائیں گی، جو سزائے موت تک یو سکتی ہیں۔

عراقی آثار و تراث کے قانون نمبر 55 (سال 2002) کے تحت، چوری شدہ نوادرات کی بازیابی نہ ہونے کی صورت میں مجرم کو کم از کم 7 سال اور زیادہ سے زیادہ 15 سال قید کی سزا دی جا سکتی ہے اور چوری شدہ نوادرات کی قیمت سے چھ گنا زیادہ جرمانہ بھی عائد کیا جاتا ہے۔

جج کے مطابق، اگر یہ جرم کسی ایسے شخص سے سرزد ہو، جو آثارِ قدیمہ کی نگرانی، تحفظ یا دیکھ بھال پر مامور ہو، تو سزا کو عمر قید تک بڑھایا جا سکتا ہے جبکہ اگر چوری زبردستی، دھمکی، یا ہتھیاروں کے ذریعے کی جائے، تو سزائے موت دی جا سکتی ہے

جج نے وضاحت کی کہ عراق نے بین الاقوامی معاہدوں جیسے یونیسکو 1970 کنونشن اور UNIDROIT 1995 معاہدے کے تحت کئی نوادرات واپس حاصل کیے ہیں۔

2021 میں امریکہ سے "گلگامش کا تختہ" واپس لایا گیا، جو ایک امریکی میوزیم میں رکھا گیا تھا

2021 میں امریکہ سے 17,000 سے زائد نوادرات بازیاب کیے گئے، جن میں سومری اور بابلی دور کے مٹی کے تختے، مجسمے اور دیگر اشیاء شامل تھیں

2017 میں فرانس سے 3,500 نوادرات اور جرمنی سے 150 نوادرات واپس لائے گئے

2019 میں برطانیہ سے 700 اور دیگر ممالک سے 2,000 نوادرات بازیاب کیے گئے

عراقی حکام نے تصدیق کی کہ اب بھی اسمگل شدہ نوادرات کی بازیابی کے لیے کوششیں جاری ہیں اور حکومت بین الاقوامی اداروں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے

جج نبیل کریم نے زور دیا کہ ثقافتی ورثے کا تحفظ قومی اور عالمی ذمہ داری ہے اور عدلیہ قوانین پر سختی سے عمل درآمد کر کے نوادرات کی اسمگلنگ روکنے کے لیے پُرعزم ہے۔

العودة إلى الأعلى