بیلجیئم: امتیازی سلوک کے 90 فیصد واقعات مسلمانوں کے خلاف ہوئے ہیں
بیلجیئم سنٹر فار ایکول اپرچیونٹیز کے ڈائریکٹر پیٹرک چارلیئر نے تصدیق کی ہے کہ بیلجیئم میں مسلم مخالف جذبات ایک "ناقابل تردید حقیقت"بن چکے ہیں
انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں امتیازی سلوک کے 90 فیصد کیسز مسلمانوں کے خلاف ہیں۔
یہ بیان یورپی یونین کے بنیادی حقوق کی اتھارٹی (FRE) کی ایک رپورٹ کی اشاعت کے بعد سامنے آیا ہے جس میں 2016 سے یورپ میں مسلمانوں کے خلاف نسل پرستی اور امتیازی سلوک میں تیزی سے اضافے کا انکشاف ہوا ہے۔
چارلیئر نے وضاحت کی کہ یہ رپورٹ مسلم کمیونٹی کو درپیش چیلنجوں کے پیمانے کی عکاسی کرتی ہے جو بیلجیئم میں تعلیمی، تجارتی اور سماجی زندگی کے شعبوں میں امتیازی سلوک کے پھیلاؤ کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ"جب ہم یہاں مذہبی امتیاز کی بات کرتے ہیں تو اس کا سامنا کرنے والوں میں سے 10 میں سے 9 مسلمان ہیں،جو اس گروہ کے خلاف بڑھتی ہوئی دشمنی کی نشاندہی کرتا ہے۔"
سنٹر نے 2017 اور 2023 کے درمیان جن کیسوں سے نمٹا ان کے جائزہ میں چارلیئر نے اشارہ کیا کہ شکایات کا سب سے بڑا حصہ ملازمت میں امتیازی سلوک ہے اس کے بعد سوشل میڈیا پر نفرت انگیز تقریر اور پھر تعلیمی اداروں میں امتیازی سلوک بڑہ رہا ہے۔
انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ مسلم خواتین، خاص طور پر حجاب پہننے والی خواتین سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔
مرکز کے ڈائریکٹر نے اس بات کی طرف نشاندہی کی ہے کہ تارکین وطن کے خلاف دشمنی بنیادی طور پر مسلمانوں کے خلاف دشمنی میں بدل گئی ہے، اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ بیلجیئم کی حکومت کے جو پروگرام تشکیل دیے جائیں گے اس میں مذہبی علامات پر پابندیوں کو سخت کرنے کے اقدامات شامل ہیں، جس سے مسلمانوں کے حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔
مشھدی