نیویارک میں 60 فیصد مسلم طلباء ہراسانی کا شکار
ایک حالیہ تحقیق کے مطابق، تقریباً 60 فیصد مسلم طلباء کو اسکولوں میں ان کے ساتھی طلباء کی جانب سے ہراساں کیا جا رہا ہے۔
مجلسِ تعلقاتِ امریکہ-اسلام (CAIR) نے یہ تحقیق پیش کی، جس میں معلوم ہوا کہ تقریباً 58.2 فیصد طلباء نے ہراسانی کی شکایت کی، جبکہ 44.7 فیصد طالبات نے بتایا کہ ان کے حجاب پہننے کی وجہ سے ان کے ساتھ بدسلوکی کی گئی
یہ مسائل زیادہ تر اسکول کے دوسرے طلباء کی جانب سے سامنے آتے ہیں، جن میں سے اکثر اس قسم کے واقعات کو رپورٹ نہیں کرتے، کیونکہ انہیں یقین نہیں ہوتا کہ اس سے کوئی فرق پڑے گا۔
اس رپورٹ سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ غزہ پر اسرائیلی حملے کے دوران فلسطینی مظلوموں کی حمایت کے اظہار پر طلباء کو اسکولوں میں اضافی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا، اور بہت سے طلباء کو اس مسئلے پر بولنے سے روک دیا گیا۔
یہ اعداد و شمار ایک سنگین اور پریشان کن صورتحال کی عکاسی کرتے ہیں، جو مسلم اور عرب برادریوں کے خلاف تعصب اور نفرت کی بڑھتی ہوئی لہر کو ظاہر کرتے ہیں، خصوصاً جب بین الاقوامی تنازعات میں شدت آتی ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ 2023 میں نیویارک کے CAIR کے دفتر کو 555 قانونی مدد کی درخواستیں موصول ہوئیں، جن میں سے 43 فیصد کا تعلق فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے سے تھا، جو اس مسئلے کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ 32 فیصد طلباء نے شکایت کی کہ انہیں فلسطین کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرنے پر اسکول میں خاموش کر دیا گیا، جبکہ 13 فیصد کو اسکول کے عملے کی طرف سے ناپسندیدہ رویے کا سامنا کرنا پڑا۔
مزید 11 فیصد طلباء نے حکومتی حکام کی جانب سے دباؤ کا سامنا کیا، 10 فیصد کو آن لائن ہراسانی یا بدنامی کا سامنا کرنا پڑا، اور 9.5 فیصد کو سماجی بائیکاٹ جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔
ابو علی