زیارت اربعین کی فضلیت و اہمیت

: شیخ سردار حسین 2024-08-14 08:58:54

اسلامی تعلیمات میں جن اعمال کو مقدس ترین عبادات میں سے شمارکیا گیا ہے اور ان کی بجاآوری پر تاکید کی گئی ہے وہ ہے اولیاء الہی اور ائمہ علیہم السلام کی زیارات کو بجا لانا ہے ۔ اور چہاردہ معصومین علیہم السلام میں بھی امام حسین علیہ السلام کی زیارت کو خاص اہمیت اور فوقیت حاصل ہے ۔اسلامی روایات میں سید الشہداء کی زیارت کے حوالے سے بہت ساری روایات منقول ہوئیں ہیں اور ان میں کئی فوائد و ثمرات ذکر ہوا ہے

اس مختصر مقالے میں امام حسین علیہ السلام کی اربعین کی زیارت کی فضیلت اور اس کا ثواب و ثمرات کو بیان کریں گے تاکہ مومنین سید الشہداء کی زیارت کے فوائد سے بہرمند ہوسکے

زیارت کے لغوی معنی ’’ کسی سےملاقات یا کسی کے دیدار کو جانا ‘‘ ہے ، اور اصطلاح میں’’ کسی مقدس اور محترم ذات سے ملنے جانا یا مقدس اور محترم جگہ پر حاضری دینا اوراس اعتقاد کے ساتھ اس جگہ پر عبادت میں مصروف رہنا ‘‘ ہے ۔ جیسے خانہ کعبہ کی زیارت یا رسولؐ یا اولادِ رسولؐ کی قبروں اور عتبات عالیات پر حاضری دینا ہے۔

اس عملِ زیارت کی طرف بہت ساری آیات و روایات میں تذکرہ ہوا ہے اور اس کی جانب لوگوں کے ذہنوں کو متوجہ کرتے ہوئے اسے اللہ کے نزدیک قابل تعریف عمل قرار دیا گیا ہے جس پر ہمارے ائمہ معصومینؑ اور اصحاب نے بہت زیادہ اہمیت دیتے ہوئے عمل بھی کیا ہے روایات اور تاریخ کی کتابوں میں جسکی بے شمار مثالیں ملتی ہیں ۔ یہاں تک کہ اگر کوئی شخص صحیح ایمان و عقیدہ ، آل محمدؐ کی محبت پر بھی کوئی مومن دنیا سے جاتا ہے تو اسکی قبر قابلِ زیارت ہوجاتی ہے ۔ جیسا کہ روایت میں موجود ہے کہ ’’ ألا ومن مات علی حب آل محمد ، جعل اللہ زوار قبرہ ملائكہ الرحمہ‘‘ یعنی جو محبت آل محمدؐ پر دنیا سے جائے اللہ ملائکہ رحمت کو اس کی قبر کا زائر بنا دیتا ہے ۔

اگر مومن کو یہ فضیلت حاصل ہے تو جو وجہ تخلیق کائنات ہیں یعنی پنجتن پاک اور ائمہ علیہم السلام کی زیارت کی فضیلت کا علم یا تو خود اللہ کو یا ائمہ علیہم السلام کو ہے۔

اربعین کا لغوی معنی چالیس ، چہلم کے ہیں لیکن اربعین کی زیارت سے مقصود امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد چالیس دن جوکہ بیس صفرالمظفر کا بنتا ہے ۔

شیخ طوسی رح کتاب مصباح المتہجد میں لکھتے ہیں : صفر کا بیسواں دن وہ دن ہے کہ (صحابی جلیل القدر)جابر ابن عبداللہ انصاری جو کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و الہ و سلم کا جلیل القدر صحابی ہے مدینہ سے امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لیئے کربلاء آئے اور آپ ہی کربلاء کے پہلے زائر ہیں اس دن امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرنا مستحب عمل ہے۔

یہاں پر یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ صحابی جلیل القدر مدینہ سے ہی امام عالی مقام کی زیارت کے قصد سے نکلے تھے اور تاریخی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ آپ اس وقت نابینا اور جسمانی ضعیفی اور ناتوانی کے باوجود کربلاء آئے تھے اور آپ نے لوگوں کو غفلت سے بیدار کرنے کے لیے اس عمل خیر کو انجام دیئے تھے۔

عطاء یا عطیہ بن سعد کوفی جو جابر بن عبداللہ انصاری رح کے ہمراہ تھے کہتا ہے کہ میں بیس صفر کو جابر ابن عبداللہ انصاری کے ساتھ تھا جب ہم غاضریہ پہنچے تو انہوں نے آب فرات سے غسل کیا اور ایک پاکیزہ پیراہن جوان کےپاس تھا زیب تن کیا اور پھر مجھے سے کہا اے عطاء ؛ کیا تمہارے پاس تھوڈا عطر ہے ؟

میں نے کہا کہ میرے پاس عطر سعد ہے اور جابر نے اس میں سے کچھ لیا اور سر اور بدن پر مل لیا ،ننگے پاوں روانہ ہوئے حتی کہ قبراطہرپر پہنچے اور قبر کے سرہانے کھڑے ہوگئیے اورتین مرتبہ اللہ اکبرکہا اور گر کر بے ہوش ہوئے جب وہ ہوش میں آئے تو انکو یہ کہتے ہوئے سنا ؛ اسلام علیکم یا آل اللہ۔

زیارات کے باب میں ائمہ علیہم السلام کی زیارت کرنے پر بہت تاکید وارد ہوئی ہے اور اس میں بھی امام حسین علیہ السلام کی زیارت کو ایک خاص شرف و منزلت حاصل ہے۔

امام محمد باقرؑ فرماتے ہیں کہ ’’ اگر لوگوں کو امام حسینؑ کی زیارت کی فضیلت کا اندازہ ہوجاتا تو لوگ شوق زیارت میں مرجاتے ‘‘۔

پس معلوم ہوا کہ سید الشہداء کی زیارت کو ایک خاص فوقیت و خصوصیت حاصل ہے ۔

امام جعفر صادقؑ کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’ لو انَّ احدَکُمْ حَجَّ دَھْرَہُ ثُمَّ لَمْ یَزُرْ الْحُسَیْنَ بْنَ عَلِیٍ لَکَاَنْ تَارِکاً مِنْ حُقُوْقِ رَسُوْلِ اللہِ ، لِاَنَّ حَقَّ الْحُسَیْنِ فَرِیْضَۃٌ مِنَ اللہِ وَاْجِبَۃٌ عَلَیٰ کُلِّ مُسْلِمٍ‘‘ اگر کوئی شخص اپنی پوری عمر مسلسل حج کرتا رہے اور حسین بن علی علیہما السلام کی زیارت نہ کرے تو اس نے رسولؐ اللہ کا حق ادا نہ کیا اس لئے کہ امام حسینؑ کا حق ہر مسلمان پر اللہ کی طرف سے فرض و واجب ہے ۔ کامل الزیارات، ص۱۲۲۔

اور زیارت اربعین امام حسین علیہ السلام کے شہادت کے چالیسویں پر مخصوص زیارت منقول ہوئی ہے اور اس روز کی زیارت کرنا مومن کی علامات میں سے گردانا گیا ہے۔جیساکہ امام حسن عسکری علیہ السلام سے مشہور و معروف روایت منقول ہوئی ہے ۔

امام حسن عسکری علیہ السلام فرماتے ہیں: عَلاماتُ المؤمنِ خَمسٌ: صَلَواتُ احدی و خَمسین، و زیارہ الاربعین ، و التختم بالیمین ، و تعفیر الجبین ، و الجھرببسم اللہ الرحمن الرحیم مومن کی پانچ علامتیں ہیں پہلی؛ اکیاون رکعت نماز پڑھنا، دوسری زیارت اربعین، تیسری دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننا، چوتھی خاک پر سجدہ کرنا اور پانچویں بلند آواز میں بسم اللہ پڑھنا۔

پس امام علیہ السلام چہلم کے دن زیارت کا پڑھنا مومن کی علامت ہے ۔

اسی طرح امام حسینؑ کی زیارت کے لئے پیدل جانے کا بھی بہت زیادہ ثواب بیان ہوا ہےجیسے کہ امام صادق علیہ السلام اپنے جد مظلوم امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے پا پیادہ سفر کے بارے میں فرماتے ہیں کہ جو شخص زیارت امام حسینؑ کے ارادے سے اپنے گھر سے نکلےاگر وہ زیارت کے لئے پیدل جارہا ہو تو اللہ اسکے ہر قدم کے بدلے ایک ہزار نیکیاں دیتا ہے اور ایک ہزار گناہ کو اس سے دور کرتا ہے اور ہزار درجے بلند کرتا ہے ۔ اسی طرح دوسری روایت میں کچھ یوں ذکر ہوا ہے

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: من خرج من منزلہ یرید زیارہ قبر الحسین بن علی علیہ السلام ان کان ماشیا کتب اللہ لہ بکل خطوۃ حسنۃ و محیٰ عنہ سیئۃ حتیٰ اذا صار فی الحائرکتبہ اللہ من المصلحین المنتجبین حتیٰ اذا قضیٰ مناسکہ کتبہ اللہ من الفائزین حتیٰ اذا اراد الانصراف اتاہ ملک فقال ان رسول اللہ یقرئک السلام و یقول لک استانف العمل و قد غفر لک مامضیٰ۔ (کامل الزیارات، ص ۱۳۲)

ترجمہ: ’’ جو شخص اپنے گھر سے امام حسین علیہ السلام کی قبر کی زیارت کی نیت سے نکلے اگر وہ پیدل سفر کرے تو اللہ اس کے ہر قدم پر اس کے لیے ایک نیکی لکھتا ہے اور ایک گناہ محو کرتا ہے یہاں تک کہ حرم کی حدود میں داخل ہو جائے اس وقت خداوند عالم اسے منتخب مصلحین میں سے قرار دیتا ہے یہاں تک کہ وہ زیارت کے مناسک انجام دے زیارت کی انجام دہی کے بعد اسے کامیاب لوگوں میں سے قرار دیتا ہے یہاں تک کہ جب وہ واپسی کا ارادہ کرے تو خدا اس کے پاس ایک فرشتہ بھیجتا ہے وہ فرشتہ اسے کہتا ہے کہ رسول خدا نے تمہیں سلام کہا ہے اور کہا ہے کہ تم اپنے اعمال نئے سرے سے شروع کرو اس لئے کہ تمہارے گزشتہ تمام گناہ معاف کر دئے گئے ہیں‘‘۔

اس حدیث میں امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لیے پیدل چلنے کو خاص اہمیت دی گئی ہے۔ بلکہ ہم ائمہ معصومین علیہم السلام کی زندگی میں بھی دیکھتے ہیں کہ وہ جب خانہ کعبہ کی زیارت کے لیے تشریف لے جاتے تھے تو کئی ایک حج پیدل چل کر بجا لاتے تھے۔ ائمہ طاہرین کے اس عمل سے یہ چیز واضح ہوتی ہے کہ اللہ کے گھر یا اللہ کے خاص بندوں کی زیارت کے لئے پیدل چلنا ایک مستحسن عمل ہے۔


زیارت اربعین کی اہمیت صرف اور صرف امام حسینؑ ہی سے مخصوص ہے ۔ آپؑ کے علاوہ کسی کے لئے یہاں تک کہ دوسرے معصومینؑ کے لئے بھی اربعین کے عنوان سے کوئی مخصوص زیارت وارد نہیں ہوئی ہے اور مفہوم اربعین امام حسینؑ کے علاوہ کسی کے لئے بیان نہیں ہوا ہے ۔ اسی لئے روز اربعین اور زیارت اربعین کے لئے عاشقان حسینؑ بن علیؑ کروڑوں کی تعداد میں آج بھی پوری شان و شوکت کے ساتھ کربلا پہونچتے ہیں ۔ اور یزیدیوں کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ امام حسینؑ کی محبت، چاہنے والوں کے دلوں سے کبھی کم نہیں ہوسکتی


العودة إلى الأعلى