مصحفِ حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا کی حقیقت
یہ الزام بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ شیعوں کا قرآن مجید ایک الگ قرآن ہے جو موجودہ قرآن مجید سے مختلف ہے اور کبھی یہ آواز بھی کانوں سے ٹکراتی تھی کہ شیعوں کا قرآن مجید 40 پاروں پر مشتمل ہے
لیکن یہ بات انتہائی مضحکہ خیز اس لیے لگتی تھی کہ ہمارے گھروں میں اور مساجد میں تو وہی قرآن مجید ہوتا تھا جو اہل سنت کے ہاں ہوا کرتا تھا بلکہ ہم تو بازار سے بھی قرآن مجید اسی دکان سے لیا کرتے تھے جہاں سے ہمارے اہل سنت دوست خریدا کرتے تھے
اور جب ہم اپنے اہل سنت دوستوں کو یہ بتاتے تھے کہ ہمارا قرآن مجید وہی ہے جو آپ کے ہاں موجود ہے تو وہ اس بات کو تسلیم کرنے سے سراسر انکار کر دیا کرتے تھے ہمارے لیے یہ بہت تعجب خیز بات ہوا کرتی تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ہمارا میل جول کچھ ایسے اہل سنت دوستوں سے بھی ہوتا رہا جو عام سنی حضرات سے ذرا نسبتاً پڑھے لکھے ہوا کرتے تھے اور یہ دوست بھی شیعوں کے بارے یہی الزام لگایا کرتے تھے کہ ہمارا قرآن مجید اور ہے اور اہل سنت کا قرآن مجید اور،مگر ان کا یہ الزام ذرا سا علمی ہوا کرتا تھا اور لہجے میں قدرے شائستگی بھی۔
ان کا کہنا تھا کہ اہل تشیع کا اصل قرآن مجید اور ہے اس کو حضرت علی علیہ السلام نے لکھا تھا اور یہ ہر امام کے پاس وراثت میں منتقل ہوتا رہا ہے یہاں تک کہ یہ امام مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے پاس پہنچ گیا ہے اور یہ قرآن مجید تب ظاہر ہوگا جب شیعوں کے بارہویں امام تشریف لائیں گے۔
نادان دوستوں کا یہ اعتراض اور الزام درحقیقت مصحفِ فاطمہ سلام اللہ علیہا کے بارے میں ہوا کرتا تھا اور اس کی وجہ چند حقائق کو آپس میں ملا کر اور چند حقائق کو نظر انداز کر کے ایک نتیجہ اخذ کرنے کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اہل بیت علیہم السلام کے پاس نسل در نسل ایک کتاب منتقل ہوتی آئی ہے اور اس کا نام مصحفِ فاطمہ سلام اللہ علیہا ہے لیکن یہ کوئی الگ سے قرآن مجید نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسی کتاب ہے جو ایسے مطالب پر مشتمل ہے جو جناب جبرائیل علیہ السلام نے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی خدمت میں پیش فرمائےتھےاور اس کو کتابی صورت میں لکھنے والی شخصیت حضرت امیر المومنین علیہ السلام تھے لیکن یہ کتاب قرآن مجید بالکل بھی نہیں ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ آئمہ علیہم السلام نے صراحت کے ساتھ یہ حقیقت عیاں فرمائی ہے کہ مصحفِ فاطمہ سلام اللہ علیہا کی حقیقت قرآن مجید کی حقیقت سے بالکل مختلف ہے اور اس میں ایک لفظ بھی قرآن مجید کا نہیں ہے اور نہ ہی اس میں احکامِ شریعت کا بیان موجود ہے اور نہ ہی، یہ کتاب عام لوگوں کے لیے ہے جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت میں منقول ہے کہ
مصحف فاطمۃ ما فیہ شئ من کتاب اللہ و إن ھو شئ ألقي علیھا بعد موت ابیھا
ترجمہ: مصحف فاطمہ سلام اللہ علیہا میں قرآن مجید میں سے کوئی چیز بھی نہیں ہے بلکہ یہ وہ شئ جو جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا پر القاء کی گئی تھی ۔
اور ایک دوسری روایت میں امام صادق علیہ السلام ہی سے نقل ہوتا ہے کہ
و مصحف فاطمۃ أما واللہ ما أزعم أنہ قرآن
ترجمہ:باخدا مجھے مصحف فاطمہ سلام اللہ علیہا کے بارے میں یقین ہے کہ یہ قرآن مجید نہیں ہے
اور اسی طرح امام موسی کاظم علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے بھی فرمایا:
عندي مصحف فاطمۃ لیس فیہ شئ من القرآن.
ترجمہ: میرے پاس مصحف فاطمہ ہے لیکن اس میں قرآن مجید میں سے کوئی بھی چیز نہیں ہے ۔
اور امام جعفر صادق علیہ السلام نے ایک روایت کے مطابق صراحت سے ارشاد فرمایا کہ مصحف فاطمہ میں بالکل کوئی احکام شریعت بیان نہیں ہوئے ہیں آپ ارشاد فرماتے ہیں کہ
أما أنہ لیس فیہ شئ من الحلال والحرام.
ترجمہ :اس میں نہ کسی حلال کا بیان ہے اور نہ ہی کسی حرام کا۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مصحفِ فاطمہ سلام اللہ علیہا کن مطالب پر مشتمل ہے ؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ روایات میں بیان ہوا ہے کہ ایک تو اس میں مستقبل میں پیش آنے والے حوادث کا ذکر ہے اور دوسرا یہ کہ اس میں کچھ خاص قسم کے اسرار و رموز کا بیان ہے جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ایک روایت میں موجود ہے کہ
یخبرھا بما یکون في ذریتھا
ترجمہ :جبرائیل علیہ السلام جناب زہرا سلام اللہ علیہا کو ان کی اولاد کے لیے مستقبل میں پیش آنے والے واقعات کے بارے میں خبر دیا کرتے تھے اور اسی طرح امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک اور روایت میں منقول ہے کہ
ولکن فیہ علم ما یکون
ترجمہ :اس میں آئندہ پیش آنے والے ہر واقعہ کا ذکر ہے.
اور امام جعفر صادق علیہ السلام کے ایک صحابی ابو بصیر روایت کرتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام اس مصحف کی عظمت اور اس کے مطالب کی رفعت اور اس میں موجود اسرار و رموز کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
وإن عندنا بمصحف فاطمۃ علیھا السلام وما یدریھم مصحف فاطمۃ؟
ترجمہ:
بے شک ہمارے پاس مصحفِ فاطمہ سلام اللہ علیہا موجود ہے اور ان کو کیا خبر کہ مصحفِ فاطمہ سلام اللہ علیہا کی عظمت کیا ہے
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مصحف کے حوالے سے پروپیگنڈا کیوں کیا جاتا ہے کہ یہ شیعہ حضرات کا ایک الگ قرآن ہے تو اس کی دو وجوہات ہیں
پہلی وجہ تو یہ ہے کہ قرآن مجید کو بھی مصحف کہا جاتا ہے اور کتابِ فاطمہ سلام اللہ علیہا کو بھی مصحف ہی کے نام سے ذکر کیا جاتا ہے لیکن لفظ مصحف قرآن مجید کے ساتھ مختص نہیں ہے بلکہ کسی بھی کتاب کو مصحف کہا جا سکتا ہے جیسا کہ لفظ الکتاب قرآن مجید کے ساتھ مختص نہیں یے بلکہ کسی بھی کتاب کو الکتاب کہا جا سکتا ہے جیسا کہ مشہور نحوی سیبویہ کی مشہور کتاب کو الکتاب ہی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے
اور مصحف فاطمہ سلام اللہ علیہا کو قرآن مجید کہنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جناب جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے سے وحی کی صورت میں نازل ہوا اور مصحفِ فاطمہ سلام اللہ علیہا بھی جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے جناب سیدہ پر القاء ہوا۔ لیکن یہ ایک اشتباہ ہے کیونکہ وحی قرآنی اور ہے اور وحی غیر قرآنی اور ہے
اور دوسری بات یہ ہے کہ لفظِ وحی صرف قرآن مجید کے ساتھ مختص نہیں ہے بلکہ قرآن مجید میں ہی وحی کو اشارہ یا مخفی بات کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔
لہذا مصحفِ فاطمہ سلام اللہ علیہا کو یہ کہنا کہ یہ شیعوں کا دوسرا قرآن ہے کم علمی اور تعصب کی نشانی ہے خداوند کریم ہم سب کو حق سمجھنے اور حق کے ساتھ رہنے اور حق کا ساتھ دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین



