مخیریق کے باغ

2024-11-12 14:59

رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی بیٹی جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کو فدک کی طرح سات باغ بھی دیے تھے جو عوالی سبعہ کہلاتے ہیں

اس مختصر مقالے میں ہم انہیں باغات کے متعلق تحقیق پیش کریں گے۔

یہ سات باغ دراصل ایک یہودی کی ملکیت میں تھے جو جناب یوسف علیہ السلام کی اولاد سے تھے۔ان کا نام مخیریق تھا۔

مخیریق: ایک یہودی عالم تھے جو اسلام کے دفاع میں شہید ہوئے۔

مخیریق، یہودی علماء میں سے ایک عظیم شخصیت پر فائز تھے جو مدینہ میں سکونت پذیر تھے ۔ وہ تورات کے ماہر تھے اور اس مقدس کتاب میں موجود ان بشارات سے خوب واقف تھے جن میں آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی نشاندہی کی گئی تھی۔ مخیریق نے ان بشارات کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ بات خوب سمجھ لی تھی کہ محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہی نبی آخرالزمان ہیں جن کی آمد کی پیشین گوئی کی گئی ہے۔

مخیریق کا اسلام قبول کرنا

ہجرت کے ابتدائی سالوں میں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی، مخیریق نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ کی شخصیت، صفات اور تعلیمات کا قریب سے مشاہدہ کیا۔ وہ جانتا تھا کہ جو نشانیاں اور علامتیں تورات میں بیان ہوئی ہیں، وہ سب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پہ پوری ہوتی ہیں۔ مخیریق نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے کا فیصلہ کیا اور اسلام قبول کیا۔

رسول اللہ ص کا قریب ساتھی

اسلام قبول کرنے کے بعد، مخیریق نے نہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ساتھ دینا شروع کیا بلکہ ان کے سفر اور حضر میں بھی ان کے ساتھ رہے۔ مخیریق کی یہ قربت اور محبت اس بات کی غماز تھی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کو گہرائی سے سمجھ چکا تھا۔ یہاں تک کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب میں شمار ہونے لگا۔

جنگ احد اور مخیریق کی قربانی

ہجرت کے تیسرے سال، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے احد کی جنگ کی تیاری کی، مخیریق کو جب اس بات کی خبر ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنگ کے لیے جا رہے ہیں، تو اس نے بھی اس جنگ میں شرکت کا عزم کیا۔ اس نے اپنی قوم بنی نظیر کی طرف رجوع کیا اور ان سے مخاطب ہو کر کہا: "اے یہودیوں! تم کیوں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد نہیں کرتے؟ خدا کی قسم، تم جانتے ہو کہ وہ اللہ کا سچا نبی ہے اور اس کی مدد تم پر واجب ہے۔" لیکن بنی نظیر کے یہودیوں نے مخیریق کی بات ماننے سے انکار کر دیا اور بہانہ بنایا کہ آج ان کے لیے جنگ میں شرکت ممکن نہیں کیونکہ وہ دن ان کے مذہب میں مقدس دن، یعنی ہفتہ (سبت) تھا۔

مخیریق کی وصیت

مخیریق نے یہودیوں کے اس انکار کے باوجود اپنا ہتھیار اٹھایا اور جنگ احد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ساتھ دینے کے لیے روانہ ہو گیا۔ جنگ میں جانے سے پہلے، اس نے ایک وصیت کی کہ اگر وہ جنگ میں شہید ہو جائے تو اس کے تمام اموال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے وقف ہوں گے تاکہ وہ انہیں جہاں چاہیں، استعمال کریں۔ اس وصیت کے الفاظ تھے: "اِنْ اُصِبْتُ فَاَمْوالی اِلی مُحَمّدٍ، یَضَعُها حَیثُ یَشَاءُ (اگر میں قتل ہو جاؤں تو میرا مال محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ہو گا تاکہ وہ جہاں چاہیں اسے استعمال کریں)

مخیریق کی شہادت

جنگ احد میں مخیریق نے بے مثال بہادری کا مظاہرہ کیا۔ وہ مسلسل دشمن کا مقابلہ کرتا رہا یہاں تک کہ اس کے جسم پر شدید زخم آئے اور وہ گھوڑے سے زمین پر گر پڑا۔ بالآخر وہ اپنی جان اللہ کی راہ میں قربان کر گیا اور شہید ہو گیا۔ اس کے وصیت کے مطابق، اس کے تمام اموال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تصرف میں آ گئے۔

سمھودی، ایک مشہور اسلامی مؤرخ، لکھتے ہیں کہ مخیریق نے اپنی وفات کے وقت پھر وصیت کی: "اَمْوالِی اِلی مُحَمّدٍ یَضَعُها حَیثُ یَشاءُ" (میرا مال محمد صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّم کے لیے ہو تاکہ وہ جہاں چاہیں اسے استعمال کریں) ۔

مخیریق کے اموال اور سات باغات

مخیریق کی وصیت کے تحت، اس کی تمام جائیداد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اختیار میں آ گئی۔ ان اموال میں خاص طور پر مدینہ منورہ کے سات باغات شامل تھے جو علاقے "عوالی" میں واقع تھے۔ ان سات باغات کے نام تاریخی کتب میں یوں درج ہیں:

1. العواف (الاَعَوَاف)

2. الدلال (الکَلا)

3. البرقہ

4. المیثب (المبیت، المُثِیب)

5. الحَسْنی (الحُسنی)

6. الصافیه

7. مشربہ ام ابراہیم

مشربہ ام ابراہیم

ان باغات میں سے ایک باغ کا نام "مشربہ ام ابراہیم" تھا، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیوی حضرت ماریہ قبطیہ کا مسکن تھا۔ حضرت ماریہ کو اسکندریہ کے بادشاہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ہدیہ کے طور پر بھیجا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ماریہ کو اس باغ میں منتقل کر دیا تاکہ وہ وہاں سکون سے رہ سکیں۔ اسی باغ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیٹے حضرت ابراہیم کی پیدائش ہوئی ۔

آج اس باغ کی جگہ پر ایک مسجد موجود ہے جس کا نام "مسجد مشربہ ام ابراہیم" ہے۔ شیخ کلینی اور شیخ حرّ عاملی کی روایات کے مطابق، یہ جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مسکن اور مصلیٰ بھی تھا ۔

عوالی کا قبرستان اور اس میں اہم قبور

عوالی کے علاقے میں کچھ اہم اسلامی شخصیات کی قبریں بھی موجود ہیں، جن میں دو بزرگ خواتین اسلام بھی شامل ہیں:

1. حضرت حمیدہ، جو امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی والدہ تھیں۔

2. حضرت نجمہ خاتون، جو امام علی رضا علیہ السلام اور حضرت فاطمہ معصومہ علیہ السلام کی والدہ تھیں

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فدک اور عوالی عطا کرنا

تاریخی شواہد اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فدک اور عوالی کی زمینیں اپنی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو عطا فرمائیں۔

اس حوالے سے شیعہ اور سنی کتب میں روایات موجود ہیں کہ یہ زمینیں ایک ہی وقت میں حضرت فاطمہ علیها السلام کے حوالے کی گئیں ۔

ابو بصیر نے امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ حضرت نے فرمایا: "کیا تمہیں حضرت فاطمہ زہرا علیہ السلام کی وصیت سناؤں؟" میں نے کہا: "جی، ضرور۔"

حضرت نے ایک صندوقچہ نکالا اور اس میں سے ایک تحریر نکالی اور اسے پڑھا:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

یہ ہے وہ وصیت جو فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کی۔ انہوں نے اپنے سات باغات کی وصیت کی: عَوَاف، دَلَال، بُرْقَہ، مَبِیت (میثب)، حُسنی (حَسَنَی)، صافیہ، اور "مال ام ابراہیم" یعنی مشربہ ام ابراہیم، یہ سب علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے لیے ہیں۔ اگر علی علیہ السلام اس دنیا سے چلے جائیں تو یہ جائیداد حسن کے لیے ہو گی، اگر حسن بھی دنیا سے چلے جائیں تو حسین کے لیے ہو گی، اور اگر حسین بھی چلے جائیں تو پھر یہ میری اولاد میں سے جو بڑا ہو گا اس کے ہونگے۔

حضرت فاطمہ زہرا علیہ السلام نے اس وصیت پر اللہ تعالیٰ، مقداد بن اسود، اور زبیر بن عوام کو گواہ بنایا اور حضرت علی علیہ السلام نے اس وصیت کو تحریر کیا۔

اسی مضمون کی وصیت کو زید بن علی نے بھی امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام سے روایت کیا ہے۔

حوالہ جات

1. معجم البلدان، جلد 5، صفحہ 241، تاریخ طبری، جلد 2، صفحہ 209.

2. فدک و العوالی، صفحہ 62.

3. کافی، جلد 4، صفحہ 560

4. اصول کافی، جلد 7، صفحہ 47

5. بحار الانوار، علامہ مجلسی، جلد 100، صفحہ 185

6. یہ فصل ترجمہ اور تلخیص ہے سید محمد باقر حسینی جلالی کی کتاب "فدک و العوالی یا الحوائط السبعة" سے، صفحات 37 تا 74

العودة إلى الأعلى