مدح و ستائش کے اثرات: اہلِ بیتؑ کی نگاہ میں
انسانی معاشرے کی بنیاد باہمی تعلقات، اخلاقی آداب اور سماجی رویّوں پر قائم ہوتی ہے۔ ان میں سب سے اہم عنصر ایک دوسرے کے اچھے کاموں کی تحسین اور نیکی کی قدر کرنا ہے ، جب کوئی انسان کوئی نیک عمل انجام دیتا ہے تو اس کے لیے تعریف و تحسین ایک عقلائی ضرورت سمجھی جاتی ہے۔ انسان فطری طور پر چاہتا ہے کہ اس کی محنت کا اعتراف ہو، اسے سراہا جائے، اور اس کے کارناموں کی قدر کی جائے۔ یہی توازن ایک مثبت معاشرہ تشکیل دیتا ہے، کیونکہ تعریف انسان کے اندر اور بہتر کام کرنے کی تحریک پیدا کرتی ہے
لیکن اسلام، جو انسان کی ظاہری اور باطنی دونوں تربیت کرتا ہے، تعریف کے اس عمل کو ایک حد میں رکھنے کی تعلیم دیتا ہے ، اہل بیتؑ کی روایات میں مدح و ستائش کے بارے میں گہری بصیرت ملتی ہے، اسلام اس تعریف کی حوصلہ افزائی کرتا ہے جو نیکی، عمل اور کوشش کی بنیاد پر ہو، لیکن اس تعریف کی سخت مذمت کرتا ہے جو شخصیت پرستی، مبالغہ، خوشامد اور سامنے بیٹھ کر مداحی کی صورت میں ہو، اس کی وجہ یہ ہے کہ سامنے کی تعریف انسان کے نفس پر ایک برا اثر ڈالتی ہے، وہ خود کو کامل سمجھنے لگتا ہے، غرور، عجب اور تکبر کے مرض پیدا ہو جاتے ہیں، اور اصلاحِ نفس کا دروازہ بند ہو جاتا ہے،
اہل بیتؑ کی اسی تربیت کے تحت پہلی روایت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل ہوئی ہے: إِذَا مَدَحْتَ أَخَاكَ فِي وَجْهِهِ فَكَأَنَّمَا أَمْرَرْتَ عَلَى حَلْقِهِ الْمُوسَى
یعنی جب تم اپنے بھائی کی اس کے سامنے تعریف کرتے ہو تو گویا اس کی گردن پر تیز دھار چھری پھیر دیتے ہو
اس روایت میں جو تشبیہ استعمال ہوئی ہے، وہ عام نہیں بلکہ انتہائی شدید ہے، چھری انسان کے جسم کو قتل کرتی ہے، اور سامنے کی تعریف انسان کی روحانی و معنوی وفکری ترقی کو قتل کر دیتی ہے، یہ تعریف انسان کو اندر سے کمزور بناتی ہے، سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ انسان اپنے اندر موجود کمزوریوں کو دیکھنا چھوڑ دیتا ہے، جب انسان اپنی تعریفیں سنتا ہے، خصوصاً اپنے سامنے، تو اس میں خود پسندی بڑھ جاتی ہے، وہ سمجھنے لگتا ہے کہ اسے مزید محنت کی ضرورت نہیں، وہ کامل ہو چکا ہے، اور یہی احساس اس کی روحانی و معنوی موت کا آغاز ہوتا ہے
اسی حقیقت کو مولا کائنات امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب علیہ السلام نے نہایت حکیمانہ انداز میں بیان فرمایا ہے:أجهل الناس المغتر بقول مادح متملق يحسن له القبيح و يبغضه إليه النصائح
یعنی سب سے زیادہ جاہل وہ ہے جو خوشامدی کی باتوں سے دھوکا کھا جائے، جو اس کے برے کاموں کو اچھا بنا کر پیش کرے اور اس کے لیے نصیحت کو ناپسندیدہ بنا دے
یہ حدیث انسانی نفسیات اور سماجی رویّوں کی گہری تشریح کرتی ہے۔ خوشامدی شخص انسان کے سامنے اس کی خامیوں کو خوبیاں بنا کر بیان کرتا ہے، اس تعریف کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان نصیحت سننا پسند نہیں کرتا، نصیحت اس کے لیے ناگوار ہو جاتی ہے، کیونکہ تعریفیں اسے زیادہ میٹھی لگتی ہیں، یوں وہ حقیقت سے دور ہوتا جاتا ہے
ایک اور موقع پر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ایک آدمی نے دوسرے شخص کی مدح کی روایت کے مطابق حضورؐ نے فوراً فرمایا: لا تسمعه فتهلكه، لو سمعك لم يفلح
یعنی اسے مت سناؤ، کہیں تم اسے ہلاک نہ کر دو۔ اگر اس نے تمہاری تعریف سن لی تو وہ کبھی کامیاب نہیں ہوگا
یہاں ہلاکت سے مراد روحانی و معنوی اور فکری ہلاکت ہے، تعریف انسان کو ایک خیالی دنیا میں لے جاتی ہے جہاں وہ اپنی کمزوریوں، غلطیوں اور اصلاح کی ضرورت سے بے خبر ہو جاتا ہے، اس کا نفس تعریف کی لذت میں گرفتار ہو جاتا ہے اور وہ حقیقی فلاح سے محروم رہ جاتا ہے
اسی سلسلے میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک اور روایت میں مدّاحی کی حقیقت کو بیان فرمایا: إياكم والمدح فإنه الذبح مداحی سے بچو، کیونکہ یہ (روحانی طور پر) ذبح کر دیتی ہے
یہاں "الذبح" یعنی ذبح کرنا، عام جسمانی موت نہیں بلکہ وہ موت ہے جو انسان کی شخصیت، کردار، فکر اور باطنی صلاحیتوں کو مار دیتی ہے۔ جب انسان تعریفوں کے نشے میں مبتلا ہو جاتا ہے تو وہ اپنی اصلاح کا سفر چھوڑ دیتا ہے، اور یوں اس کی معرفت و عقل کی قوت کمزور ہوتی جاتی ہے
اس بات کی شدت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک اور حدیث سے ظاہر ہوتی ہے فرمایا:لو مشى رجل إلى رجل بسكين مرهف كان خيراً له من أن يثني عليه في وجهه اگر ایک شخص دوسرے کی طرف تیز دھار چھری لے کر جائے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ اس کے سامنے تعریف کرے
یہ تشبیہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ سامنے کی تعریف انسان کے دل اور روح کو نقصان پہنچاتی ہے، اور یہ نقصان جسمانی چوٹ سے بھی زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ جسمانی چوٹ وقت کے ساتھ بھر جاتی ہے، مگر روحانی چوٹ انسان کو زندگی بھر کمزور کرتی ہے۔
ان روایات میں جو شدت آئی ہے، اس کی کئی وجوہات ہیں پہلی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ سامنے تعریف کرنا انسان کے عمل میں فتور پیدا کرتا ہے۔ کیونکہ اسکی نیت خالص نہیں رہتی ہے
ساتھ ہی جب انسان سنتا ہے کہ وہ بہت اچھا ہے، بے مثال ہے، تو وہ سمجھتا ہے کہ اب اسے مزید کوشش کی ضرورت نہیں۔ یہ احساس اسے سستی، غفلت اور جمود میں مبتلا کر دیتا ہے
دوسری وجہ یہ ہے کہ سامنے کی تعریف انسان کے دل میں غرور اور تکبر پیدا کرتی ہے، تکبر وہ بیماری ہے جو نہ صرف انسان کو خدا سے دور کرتی ہے بلکہ اسے مخلوق کے درمیان بھی بگاڑ کا شکار کرتی ہے، تکبر انسان کو نصیحت قبول کرنے سے دور کر دیتا ہے، اور نصیحت کا دروازہ بند ہو جائے تو انسان کی گمراہی یقینی ہو جاتی ہے
تیسری وجہ ’عجب‘ ہے۔ عجب یعنی خود پسندی۔ جب انسان تعریف سنتا ہے تو وہ اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر سمجھنے لگتا ہے۔ وہ اپنے اندر موجود کمزوریوں کو دیکھنے سے غافل ہو جاتا ہے۔ عجب انسان کی روحانی ترقی کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے
چوتھی وجہ یہ ہے کہ سامنے کی تعریف انسان کو خوشامدی لوگوں کا اسیر بنا دیتی ہے،خوشامدی شخص کبھی بھی نیک نیت نہیں ہوتا، اس کی تعریف کے پیچھے کوئی نہ کوئی مفاد ہوتا ہے، جب کوئی شخص تعریف کا عادی ہو جائے تو وہ ایسے لوگوں کو قریب کر لیتا ہے جو اس کی تعریف کر کے اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں، یوں وہ دھوکے بازوں، مفاد پرستوں، اور غیر اخلاقی لوگوں کے جال میں پھنس جاتا ہے
اسی مقام پر امیرالمؤمنین علیہ السلام کا وہ عظیم فرمان جو نہج البلاغہ کلمات قصار میں موجود ھے نہایت اہمیت رکھتا ہے جو آپؑ کے سامنے تعریف کیے جانے پر آپؑ نے ارشاد فرمایا: «اللّٰهُمَّ إِنَّكَ أَعْلَمُ بِي مِنْ نَفْسِي، وَأَنَا أَعْلَمُ بِنَفْسِي مِنْهُمْ، اللّٰهُمَّ اجْعَلْنَا خَيْرًا مِمَّا يَظُنُّونَ، وَاغْفِرْ لَنَا مَا لَا يَعْلَمُونَ»
ترجمہ: اے اللہ! تو مجھے مجھ سے بھی زیادہ جانتا ہے، اور میں اپنے آپ کو ان لوگوں سے زیادہ پہچانتا ہوں، اے خدا! جو یہ لوگ میرے بارے میں گمان کرتے ہیں مجھے اس سے بہتر بنا دے، اور میری ان لغزشوں کو معاف کر دے جن کا انہیں علم نہیں
یہ جملہ اسلامی اخلاق کی بنیاد ہے۔ امام ؑ یہاں تین اہم نکات بیان کر رہے ہیں:
1. اصل تعریف کا مستحق صرف اللہ ہے،کیونکہ وہی انسان کی حقیقت سے واقف ہے۔ اس سے کوئی چیز پوچھیدہ نہیں بلکہ سب عیاں ہی عیاں ہے
2. انسان خود اپنے نفس کو دوسروں سے زیادہ جانتا ہے لہٰذا دوسرے کسی کی حقیقت سے واقف نہیں۔ ان کی تعریف کئی بار حقیقت سے دور ہوتی ہے
3. تعریف کے وقت انسان کو اللہ سے سوال کرنا چاہیے کہ وہ اسے حقیقت میں اس سے بہتر بنا دے
یعنی تعریف کو تکبر کا ذریعہ نہیں، بلکہ دعا کا ذریعہ بنانا چاہیے
اس فرمان کے ذریعے امامؑ نے واضح کر دیا کہ سامنے کی تعریف انسان کی حقیقت کو نہیں بدلتی، اور نہ تعریف کرنے والوں کو انسان کے باطن کی خبر ہوتی ہے لہٰذا تعریف کبھی حقیقت کی تعیین نہیں بن سکتی
ان تمام روایات کا حاصل یہ ہے کہ تعریف اگرچہ مجموعی طور پر ایک مثبت عمل ہے، لیکن سامنے کی تعریف، مبالغہ آرائی، خوشامد اور شخصیت پرستی خطرناک ہے، اسلام ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ تعریف ہو تو عمل کی بنیاد پر ہو، اور سامنے نہ ہو، اگر کسی کے سامنے بات کرنی ہو تو نصیحت کا انداز ہو، نہ کہ مبالغہ آمیز ستائش
آخر میں واضح رہے کہ اسلام تعریف کی نفی نہیں کرتا، بلکہ تعریف کے ظلمانی پہلو کی نفی کرتا ہے۔ وہ تعریف جو انسان کو ترقی دے، اسے آگے بڑھائے، اور اس کے دل میں حوصلہ پیدا کرے، وہ مطلوب ہے، لیکن وہ تعریف جو انسان کے نفس کو بگاڑے، اسے غرور میں مبتلا کرے، اور اسے خوشامدیوں کا قیدی بنا دے،وہ سخت ممنوع اور مذموم ہے۔ اس سے بچنا ہی روحانی سلامتی، اخلاقی پختگی اور حقیقی انسانیت کا راستہ ہے



