فدک کا ایک مختصر تعارف
فدک کا ایک مختصر تعارف
تحریر:ڈاکٹر سید وقار حیدر نقوی
فدک کے حوالے سےبعض لوگوں کی طرف سے بسااوقات یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ شاید کہ یہ ایک مختصر سی جگہ کا نام تھا یا یہ ایک چھوٹاسا گاؤں تھا یا یہ ایک کم مالیت والی جگہ تھی لیکن اگراس معاملے کو تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو حقیقت اس کے برعکس ہے
تاریخی حقیقت یہ ہے کہ یہ کسی چھوٹے سے گاؤں یا قریے کا نام نہیں تھا، بلکہ یہ ایک بہت بڑی جگہ تھی، ایک وسیع علاقہ تھا جہاں پر بہت زیادہ کھجوریں موجود تھیں اور وہاں کی زمین کی آبیاری چشمے سے ہوتی تھی۔
صاحب معجم بلدان رقمطراز ہیں کہ
فَدَك : قرية بالحجاز ، بينها وبين المدينة يومان وقيل ثلاثة ، أفاءها الله على رسوله ( صلى الله عليه وآله ) في سنة سبع من الهجرة صلحاً ، فهي مِمَّا لم يوجف عليها بخيل ولا ركاب ، فكانت خالصة لرسول الله ( صلى الله عليه وآله ) ، فيها عَينٌ فوَّارةَ ، ونخيل كثيرة ( معجم البلدان ۴ / ۲۳۸ ) .
ترجمہ –فدَك : حجاز میں ایک قريه ہے، مدینہ سے اس کا فاصلہ دو دن کا ہے، بعض نے تین دن بھی کہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سن ہجری سات میں اسے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صلحاً (یعنی بغیر جنگ کے) غنیمت کے طور پر عطا فرمایا۔ پس یہ اس قسم کی زمینوں میں سے ہے جن پر گھوڑے یا اونٹ دوڑا کر (جنگ سے) فتح نہیں کی گئی۔ چنانچہ یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخصوص ملکیت تھی۔ اس میں ایک بہت زیادہ پانی پھینکنے والا چشمہ اور کھجور کے بہت سے درخت تھے۔
قریہ کا لغت میں کیا معنی ہے؟
عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ھے کہ قریہ کا لغوئ معنی گاؤں ہے لیکن ابن منظور کچھ اور ہی بیان کرتے ہیں
ابن سيده: القَرْية والقِرْية لغتان المصر الجامع(لسان العرب حرف ق)
ترجمہ:ابن سیدہ نے کہا ھے کہ قریہ کی دو لغتیں ہیں ایک فتحہ کے ساتھ اور دوسری کسرہ کے ساتھ ،اور قریہ ہر لحاظ سے ایک جامع شہر کو کہا جاتا ہے
مصر کے معنی کیا ہیں؟
مصر کا لفظ قرآن مجید بھی استعمال ہوا ہے اور اہل سنت مترجمین نے اس کا معنی شہر ذکر کیا ہے
اهْبِطُوا مِصْرًا فَإِنَّ لَكُم مَّا سَأَلْتُمْ
البقرہ :61
ترجمه - اتر کسی شهرمیں، ترجمه، شاہ رفیع الدین واشرفت علی تھانوی
اہل سنت کے عظیم مفسر ابن کثیر نے بھی قریہ کا معنی شہر ہی لکھا ہے ملاحظہ ہو
وَإِذْ قُلْنَا ادْخُلُوا هَٰذِهِ الْقَرْيَةَ(البقرة58)
ترجمہ:جب ھم نے کہا اس قریہ میں داخل ہو جاؤ۔ابن کثیر نے اس کی تفسیر میں لکھا ہے کہ قریہ سے مراد بیت المقدس ہے ابن کثیر ج1ص118
بیت المقدس کوئی گاؤں نہ تھا بلکہ وہ قبلہ اول ہے جس طرح قبلہ دوم کعبہ کا محل وقوع ایک شہر ہے اس طرح قبلہ اول کا محل وقوع ایک شہر ہے
لہذا یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ فدک کسی چھوٹی سی جگہ کا نام نہیں تھا بلکہ یہ ایک بہت بڑی جاگیرتھی
فدک کی وجہ تسمیہ
فدک اصل میں حام کے بیٹے کا نام تھا
وقال الزجاجي سميت بفدك بن حام وكان اول من نزلها(معجم البلدان ج14ص240
ترجمہ :۔ زجاجی نے کہا کہ اس شہر کا نام فدک اس لئے تھا کہ حام کا بیٹا فدک اس جگہ پہلے ترا اور اس کو آباد کیا ۔
غلہ فدک کی مالیت:
ابن ابی الحدید نے لکھا ہے کہ
فقوّموا أرض فدك و نخلها، فأخذها عمر و دفع إليهم قيمة النصف الّذي لهم.
و كان مبلغ ذلك خمسين ألف درهم ۔
شرح نهج البلاغة لابن أبي الحديد: ١۶ / ٢١١ .
ترجمہ :پس انہوں نے فدک کی زمین اور کھجور کے باغات کی قیمت کا اندازہ لگایا۔ تو حضرت عمر نے وہ جائیداد (حکومت کی تحویل میں) لے لی اور انہیں ان کے حصے کی قیمت ادا کر دی۔
اور اس کی کل رقم پچاس ہزار درہم تھی
قال أبو داود ولي عمر بن عبد العزيز الخلافة وغلته أربعون ألف دينار (سنن أبي داؤد ج3 ص144)
ابو داود نے کہا کہ جب علط بن عبد العزیز نے خلافت سنبھالی تو اس وقت فدک کے غلے کی قیمت چالیس ہزار دینارتھی
فقال له: و من ما ذا تنفق على المسلمين و قد حاربتك العرب كما ترى!ثم أخذ الكتاب منه فشقّه( السيرة الحلبية ج3 ص488) برهان الدين القاضي
ترجمہ: تو عمر نے ابو بکر سے کہا: "اور پھر تم مسلمانوں پر کس مال سے خرچ کرو گے، جبکہ تم دیکھ رہے ہو کہ عربوں نے تمہارے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے!"
پھر انہوں نے وہ خط ان کے ہاتھ سے لے لیا اور پھاڑ ڈالا۔ یہ بحث اس وقت جب فدک کو ایک روایت کے مطابق حضرت فاطمہ س کو لکھ کر دے دیا گیا تھا
کسی بھی ایسی ریاست کا دفاعی بجٹ سب سے زیادہ ہوتا ہے جو جنگون کا سامنا کر رہی ہواور فدک اتنی بڑی سرزمین کا نام تھا کہ اس وقت کی ریاست کا دفاعی بجٹ فدک کیا آمدنی پر موقوف تھا



