صدقہ کی اہمیت و برکات ، احادیث کی رو سے ایک اجمالی جائزہ
صدقہ انسان کی زندگی میں محض ایک مالی عمل کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک ایسی نورانی حقیقت ہے جسے قرآن کریم اور روایاتِ اہلِ بیت علیہم السلام میں بہترین نیکیوں اور مؤثر ترین حسنات میں شمار کیا گیا ہے
یہ ایسا عمل ہے جو بظاہر مختصر نظر آتا ہے، مگر اس کے اندر انسان کی دنیا اور آخرت کو بدل دینے والی طاقت پوشیدہ ہے۔ اسلام نے صدقہ کو صرف مال دینے تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسے ایک وسیع تر معنوی دائرہ دیا ہے جہاں ایک اچھی بات، ایک نرم لہجہ، کسی کے دل کو تسلی دینا، غمگین انسان کی دلجوئی کرنا، اور حاجت مند کے چہرے پر مسکراہٹ لانا بھی صدقہ قرار دیا گیا ہے
صدقہ کی بنیاد نیت پر ہے ہر عطیہ صدقہ نہیں ہوتا، مگر وہ عطیہ جو خدا کی رضا اور قربِ الٰہی کی نیت سے دیا جائے، وہ یقیناً صدقہ کہلاتا ہے، چاہے وہ واجب ہو جیسے زکات یا مستحب ہو جیسے انفاق فی سبیل اللہ۔ صدقہ یعنی جس میں ریاکاری نہ ہو، اور جو روح کو پاکیزہ کرتا ہوا بندے کو ربّ کے قریب لے جائے۔
اسلام میں صدقہ کی دو جہتیں بیان کی گئی ہیں ایک وہ جو فردی اورشخصی ہے، جیسے کسی یتیم کی کفالت، بیمار کے علاج کا انتظام، بے سہارا شخص کی مدد، یا کسی ضرورت مند کے غم کم کرنا
دوسری جہت وہ ہے جو اجتماعی ہے، یعنی صدقۂ جاریہ جیسے اسپتال بنانا، یتیم خانہ، مدرسہ یا فلاحی ادارہ قائم کرنا یا ان کے لیے عطیہ دینا۔ اس قسم کا صدقہ انسان کے جانے کے بعد بھی جاری رہتا ہے اور ہر لمحہ اس کے نامۂ اعمال میں نیکی لکھتا رہتا ہے
روایاتِ اہلِ بیت علیہم السلام میں صدقہ کے بارے میں جو نورانی مضامین بیان ہوئے ہیں وہ اس عمل کی حقیقت اور تاثیر کو کھول کر بیان کرتے ہیں۔ حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کا مختصر مگر عمیق فرمان ہے الصدقہ دواء منجح یعنی صدقہ ایک کارآمد دوا ہے
یہ مختصر جملہ اپنی جگہ ایک مکمل فلسفہ رکھتا ہے۔ اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ جب کسی محروم یا بیمار انسان کو صدقہ دیا جاتا ہے تو وہ اس کے ذریعے اپنا علاج معالجہ کروا سکتا ہے، اپنے مسائل حل کر سکتا ہے، اور اپنی تکلیف دور کر سکتا ہے۔ یوں صدقہ معاشرے سے بیماری، بھوک، غربت اور محرومی کے درد کو کم کرنے والی دوا بن جاتا ہے۔ دوسرا پہلو معنوی ہے کہ جب کوئی پریشان، کمزور یا غریب شخص صدقہ پاتا ہے تو اس کے دل سے نکلنے والی دعا صدقہ دینے والے کے حق میں شفا، آسانی اور رحمت کا سبب بنتی ہے۔
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد اس مفہوم کو مزید واضح کرتا ہے داوُوا مَرْضاكُمْ بِالصَّدَقَةِ، وَادفعوا أَبْوابَ الْبَلاءِ بِالدُّعاءِ
ترجمہ اپنے بیماروں کا علاج صدقہ کے ذریعے کرو اور بلاؤں کے دروازوں کو دعا کے ذریعے بند کر دو
یہ حدیث صرف انفرادی شفا کی بات نہیں کرتی، بلکہ یہ انسان کو سکھاتی ہے کہ صدقہ مصیبتوں کو دور کرنے، بلاؤں کے راستے روکنے، اور دکھوں کا مداوا کرنے کے لیے خدا کی طرف سے عطا کردہ ایک روحانی ہتھیار ہے۔
ایک روایت میں نقل ہوا ہے کہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی خدمت میں ایک شخص آیا اور عرض کیا کہ میرے گھر میں بیوی بچوں سمیت دس افراد ہیں وہ سب کے سب مریض ہیں۔ امام علیہ السلام نے فرمایا داوهُمْ بِالصَّدَقَةِ، فَلَیْسَ شَيْءٌ أَسْرَعَ إِجَابَةً مِنَ الصَّدَقَةِ، وَلا أَجْدَى لِلمَرِيضِ مِنْهَا ترجمہ : انہیں صدقہ کے ذریعے شفا دو، کیونکہ کوئی چیز صدقہ سے زیادہ جلدی اثر نہیں کرتی، اور مریض کے لیے اس سے زیادہ فائدہ مند کوئی چیز نہیں
یہ روایت صدقہ کے روحانی اثر کو بیان کرتی ہے کہ ایک سچا، پاکیزہ اور خلوص سے دیا گیا صدقہ نہ صرف مادی ضرورتیں پوری کرتا ہے بلکہ خدا کے دربار میں جلد قبول بھی ہوتا ہے اور اس کے اثرات حیرت انگیز طور پر ظاہر ہوتے ہیں۔
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک اور حدیث میں صدقہ کی عظمت یوں بیان ہوئی ہے تَصَدَّقُوا وَلَوْ بِتَمْرَةٍ، فَإِنَّهَا تَسُدُّ مِنَ الجَائِعِ، وَتُطْفِئُ الخَطِيئَةَ كَمَا يُطْفِئُ المَاءُ النَّارَ ترجمہ : صدقہ دو، چاہے ایک کھجور ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ یہ بھوکے کا پیٹ بھر دیتی ہے اور گناہوں کو ایسے بجھا دیتی ہے جیسے پانی آگ کو بجھاتا ہے۔
یہ حدیث ہمیں بتاتی ہے کہ صدقہ کا اثر صرف دنیاوی فائدے تک محدود نہیں بلکہ یہ انسان کی روح پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ گناہوں کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے، دل میں نور پیدا ہوتا ہے، اور انسان تقربِ خدا کی طرف بڑھتا ہے۔
ایک اور حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ، فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا فَبِكَلِمَةٍ طَيِّبَةٍ
ترجمہ : آگ سے بچو چاہے آدھی کھجور کے صدقے سے ہی کیوں نہ ہو، اور اگر یہ بھی میسر نہ ہو تو ایک اچھی بات سے
یہ تعلیم اسلام کی جامعیت کو ظاہر کرتی ہے کہ اگر کسی کے پاس دینے کو کچھ نہ ہو تو وہ اپنے اخلاق، گفتار، اور حسنِ سلوک کے ذریعے بھی صدقہ ادا کر سکتا ہے۔
ایک اور گہری حدیث میں آیا ہے ما مِنْ عَبْدٍ مُسْلِمٍ يَتَصَدَّقُ مِنْ كَسْبٍ طَيِّبٍ… إِلَّا كَانَ اللهُ آخِذَها بِيَمِينِهِ، فَيُرَبِّيها لَهُ كَمَا يُرَبِّي أَحَدُكُمْ فَصِيلَهُ، حَتَّى تُصْبِحَ التَّمْرَةُ مِثْلَ أُحُدٍ
ترجمہ : جو مسلمان پاکیزہ کمائی سے صدقہ دیتا ہے… اللہ اسے اپنے دستِ قدرت میں لیتا ہے اور اسے یوں بڑھاتا ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنے بچوں کی نمو و پرورش کرتا ھے یہاں تک کہ وہ کھجور پہاڑ اُحد کے برابر ہوجاتی ہے۔
یہ حدیث صدقہ کے اخلاص اور حلال کمائی کی اہمیت کو بیان کرتی ہے۔ ایک چھوٹا سا عمل نیت کی پاکیزگی اور رزق کی طہارت کی وجہ سے بے حد عظیم درجہ حاصل کر لیتا ہے
رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک اور فرمان ہے
أَرْضُ القِيَامَةِ نَارٌ مَا خَلَا ظِلَّ المُؤْمِنِ، فَإِنَّ صَدَقَتَهُ تُظِلُّهُ۔
ترجمہ :قیامت کی زمین آگ ہوگی، مگر مؤمن اس آگ سے محفوظ رہے گا، کیونکہ اس کا صدقہ اسے سایہ عطا کرے گا۔
یہ حدیث صدقہ کے اخروی فائدے کو بیان کرتی ہے کہ قیامت کے دن جب کسی کے پاس کوئی سہارا نہ ہوگا، انسان کا یہی عمل اس کے لیے سایہ، رحمت اور امن کا ذریعہ بنے گا۔
امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے البِرُّ وَالصَّدَقَةُ يَنْفِيَانِ الفَقْرَ، وَيَزِيدَانِ فِي العُمُرِ، وَيَدْفَعَانِ سَبْعِينَ مِائَةِ سُوءٍ۔
ترجمہ : نیکی اور صدقہ فقر کو دور کرتے ہیں، عمر میں اضافہ کرتے ہیں، اور سات سو قسم کی برائیوں کو دور کر دیتے ہیں
یہ روایت واضح کرتی ہے کہ صدقہ انسان کی جسمانی اور معاشی زندگی تک محدود نہیں بلکہ یہ اس کے مقدر، عمر، اور حالات پر بھی اثر انداز ہوتا ہے
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا داوُوا مَرْضاكُمْ بِالصَّدَقَةِ، وَادْفَعُوا البَلاءَ بِالدُّعاءِ، وَاسْتَنْزِلُوا الرِّزْقَ بِالصَّدَقَةِ، فَإِنَّهَا تَفُكُّ مِنْ بَيْنِ لَحْمِ السَّبُعِ الدَّائِبِ شَيْطَاناً، وَلَيْسَ شَيْءٌ أَثْقَلَ عَلَى الشَّيْطَانِ مِنَ الصَّدَقَةِ عَلَى المُؤْمِنِ، وَهِيَ تَقَعُ فِي يَدِ الرَّبِّ قَبْلَ أَنْ تَقَعَ فِي يَدِ العَبْدِ۔
ترجمہ : اپنے مریضوں کا علاج صدقہ سے کرو، بلاؤں کو دعا سے دور کرو، اور رزق کو صدقے کے ذریعے نازل کرو۔ صدقہ ایسا ہے جو انسان کو اس طرح بچاتا ہے جیسے درندے کے چنگل سے کوئی چیز چھڑالی جاتی ہے۔ اور شیطان پر مؤمن کے صدقے سے زیادہ بھاری کوئی چیز نہیں۔ صدقہ بندے کے ہاتھ میں پڑنے سے پہلے ربّ کے ہاتھ میں جاچکا ہوتا ہے
یہ حدیث صدقہ کی حقیقت کو یوں بیان کرتی ہے کہ یہ صرف مالی امداد نہیں بلکہ روحانی حفاظت، رزق میں برکت اور شیطان کے وساوس کے خلاف مضبوط ڈھال ہے
ان تمام احادیث کا اجتماعی مفہوم یہ ہے کہ صدقہ ایک ایسا نورانی عمل ہے جو انسان کے دل کو نرم کرتا ہے، اس کے رزق میں اضافہ کرتا ہے، بیماریوں کو دور کرتا ہے، بلاؤں کو ہٹاتا ہے، شیطان کے اثرات کو کمزور کرتا ہے، گناہوں کو مٹا دیتا ہے، اور قیامت کے دن انسان کے لیے سایہ بن جاتا ہے۔ یہ محض چند سکوں کا لین دین نہیں بلکہ انسان اور خدا کے درمیان ایک مضبوط اور روشن رابطہ ہے
صدقہ دینے والا دراصل اپنا مال نہیں دیتا بلکہ اپنے دل کی سختی کو پگھلاتا ہے، اپنی روح کو پاک کرتا ہے، اپنے رزق کو پاکیزہ کرتا ہے، اور اپنی زندگی کو خیر و برکت سے بھرتا ہے۔ وہ جب کسی غریب کے چہرے پر مسکراہٹ لاتا ہے تو دراصل اپنی تقدیر میں روشنی بھر رہا ہوتا ہے۔
آج کے دور میں جب ہمارے معاشرے میں غربت، بیماری، معاشی مشکلات اور بے شمار آزمائشیں عام ہیں، صدقہ نہ صرف سماجی حل ہے بلکہ روحانی علاج بھی ہے۔ انسان جب کسی حاجت مند کے لیے اپنے ہاتھ کھولتا ہے تو دراصل خدا کی رحمت اس کے لیے دروازے کھول دیتی ہے۔ صدقہ انسان کی دنیا کو سنوارتا ہے اور آخرت کو محفوظ کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ؛ کہ صدقہ دینے میں تاخیر نہ کرو، کیونکہ بلائیں صدقہ دینے سے پہلے انسان تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہیں مگر صدقہ انہیں روک دیتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ اگر ہر صاحبِ حیثیت شخص اپنے ماحول، خاندان، محلہ اور معاشرے میں موجود ضرورت مندوں تک اپنا ہاتھ بڑھائے تو نہ صرف کئی بیماریوں کا علاج ممکن ہوگا بلکہ غربت کے کئی دروازے بند ہو سکتے ہیں۔ صدقہ تقسیمِ دولت کا سب سے حسین اور اخلاقی طریقہ ہے جس سے تلخیاں کم ہوتی ہیں اور محبت اور بھائی چارہ قائم ہوتا ہے۔
صدقہ دلوں کو جوڑتا ہے، نفرتیں مٹاتا ہے، اور انسان کو انسانیت کے اصل مقام پر لے جاتا ہے۔ آج دنیا جن بحرانوں سے گزرتی ہے اُن میں سے اکثر کا حل صدقہ اور احسان کی اس روحانی تعلیم میں چھپا ہے جو اسلام نے عطا کی ہے۔ انسان کا دل نرم ہو جائے تو وہ دوسروں کا بھلا چاہتا ہے، اور جب ایسا ہوتا ہے تو معاشرے میں رحمت، برکت اور امن قائم ہوتا ہے۔
یوں صدقہ محض ایک مالی عمل نہیں بلکہ معاشرے کی روحانی اور اخلاقی صحت کے لیے خدا کی طرف سے عطا کردہ ایک معجزہ ہے۔ جو دل اس عمل سے مانوس ہو جاتا ہے، وہ کبھی خالی نہیں رہتا، نہ رزق میں اور نہ سکون میں۔ اور جو معاشرہ صدقہ کو اپنا شعار بنا لیتا ہے وہ ہمیشہ خدا کی رحمتوں کے سائے میں رہتا ہے



