فتح و نصرت کا مفہوم اور اس کے اسبا ب آیات الہی کی روشنی میں
قرآن مجید اور تاریخ اسلام اس اصول کی سینکڑوں مثالوں سے بھری ہوئی ہے ،مگر ایک سوال ہر صاحبِ ایمان کے ذہن میں ضرور ابھرتا ہے اللہ کی نصرت کیسے حاصل ہوتی ہے؟ فتح کن بنیادوں پر ہوتی ہے؟ اور یہی بنیادی سوال ہے ؟
تمہید
تاریخ انسانیت میں قوموں کے عروج و زوال کا بنیادی راز ان کی معنوی اور روحانی وابستگیوں میں مضمر رہا ہے ،جب قومیں خدا کے دین پر قائم رہیں، صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا اور مادی و روحانی جہات سے اپنی ذمہ داریوں کو نبھایا، تو اللہ کی نصرت و فتح ان کا مقدر بنی، لیکن جب انہوں نے دین سے منہ موڑا، راحت پرستی و غرور کو اپنا شعار بنایا، تو وہ خدا کی مدد سے محروم ہو گئیں
فتح و نصرت کا قرآنی مفہوم
فتح کا مطلب ہے "راستہ کھول دینا، رکاوٹ ہٹا دینا، کامیابی عطا کرنا ،نصر کا مطلب ہے "مدد، حمایت، پشت پناہی۔
قرآن مجید میں نصر اور فتح کا تعلق کسی جنگی کامیابی یا مادی غلبے تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک الٰہی تائید ہے جو صرف مادی اسباب کے سہارے نہیں بلکہ ایمانی بنیادوں پر عطا ہوتی ہے۔ وما النصرالا من عند اللہ ترجمہ مدد صرف اللہ کی طرف سے ہے۔ سورہ آل عمران 126
عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ صرف مسلمان ہونا یا اسلام قبول کرنا ہی اللہ کی مدد حاصل کرنے کے لیے کافی ہے حالانکہ قرآن واضح الفاظ میں بیان کرتا ہے کہ ایمان کے ساتھ استقامت، قربانی، صبراور تقویٰ جیسے اوصاف بھی لازم ہیں۔
جیسا کہ ارشاد ہوا : احسب الناس ان یترکو ان یقولوا آمنا وھم لا یفتنون ترجمہ کیا لوگوں نے گمان کیا کہ وہ صرف کہہ دینے سے کہ ہم ایمان لائے، چھوڑ دیے جائیں گے؟ اور ان کی آزمائش نہ ہو گی؟ عنکبوت 2
فتح و نصرت کے بنیادی اسباب
قرآن اور احادیث کی روشنی میں نصرت الٰہی کے حصول کے درج ذیل اسباب سامنے آتے ہیں
1. ایمان و تقویٰ
نصرت الٰہی کی بنیاد ایمان اورتقویٰ ہے ، وہ قومیں جو رب کے احکام پر عمل کرتی ہیں، ان پر اللہ کی مدد نازل ہوتی ہے۔
ان تنصرو ا اللہ ینصرکم و یثبت اقدامکم ترجمہ : اگر تم اللہ کی مدد کرو گے (یعنی اس کے دین کی مدد کرو)، تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جما دے گا
2. صبر و استقامت
اللہ کی نصرت کبھی بھی فوری نہیں آتی، بلکہ وہ تب نازل ہوتی ہے جب مؤمنین سخت مصیبتوں سے گزر کر ثابت قدمی دکھاتے ہیں۔
متی نصر اللہ ،الا ان نصر اللہ قریب ترجمہ : جب رسول اور مؤمنین چیخ پڑے کہ "اللہ کی مدد کب آئے گی؟" تب فرمایا: "یقیناً اللہ کی مدد قریب ہے
یہ آیت ثابت کرتی ہے کہ مایوسی کی سرحد تک پہنچنے کے بعد بھی اگر ایمان پر قائم رہا جائے تو مدد آتی ہے
3. توکل علی اللہ
نصرت الٰہی ان پر آتی ہے جو اللہ پر توکل کرتے ہیں، مادی اسباب کے ساتھ دل کا تعلق اللہ سے جوڑتے ہیں
وعلی اللہ فلیتوکل المومنون ترجمہ : لہذا ایمان والوں کو چائیے کہ وہ صرف اللہ پر بھروسا کریں آل عمران 160
4. ظاہری اسباب سے قطع نظر
اللہ کی غیبی مدد اس وقت آتی ہے جب ظاہری اسباب فیل ہو جائیں اور مؤمنین صرف اللہ کے در پر جھک جائیں۔
جیسے کہ جنگ بدر میں ہوا
ماالنصر الا من عند اللہ ،ان اللہ عزیز حکیم ترجمہ : نصرت تو بس اللہ کی جانب سے ہے ، بے شک اللہ بڑا غالب آنے والا ، حکمت والا ہے
5. فتح، مادّی وسائل سے مشروط نہیں
فتح ہمیشہ بڑی فوج یا زیادہ ہتھیار سے نہیں ملتی، بلکہ اللہ کی تائید سے ملتی ہے۔
جیسے جنگِ حنین میں مسلمانوں کو اپنی کثرت پر فخر ہوا، تو انہیں شکست کا سامنا ہوا: ویوم حنین اذ عجبتکم کثرتکم فلم تغن عنکم شیئا (التوبہ 25)
6. قربانی اور فداکاری
اللہ کے راستے میں ہر قسم کی قربانی، خواہ جان ہو یا مال، نصرتِ الٰہی کا دروازہ کھولتی ہے۔
واقعہ غارِ ثور اس کی بہترین مثال ہے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ صلی کے ساتھی غار میں دشمنوں سے چھپے ہوئے تھے، اور اللہ نے فرمایا: لا تخزن ان اللہ معنا (توبہ 40 )
7. دعاؤں اور سکون کا نزول
مشکل حالت میں اللہ کی طرف رجوع کرنا اور دعائیں پڑھنا، دلوں میں سکون اور اطمینان پیدا کرتی ہیں، جو نصرت الہی کے اسباب میں سے ہے
فانزل اللہ سکینہ علیہ و ایدہ بجنود لم تروھا
عملی نتائج اور سبق
1. ایمانی صفات اپنانا لازم ہے: جیسے کیلہ تقویٰ، توکل، صبر، اور اخلاص وغیرہ
2. صرف دعائیں اور امید کافی نہیں، بلکہ میدانِ عمل میں اترنا ضروری ہے
3. اللہ کی نصرت خالص مومنوں کے لیے مخصوص ہے، جو قربانی، وفاداری اور استقامت کا مظاہرہ کرتے ہیں
4. شکست یا آزمائش، مایوسی کی علامت نہیں، بلکہ امتحان ہے کہ کون نصرت کے لائق بنتا ہے۔
پس خلاصہ کلام یہ ہے کہ اللہ کی نصرت ایک انعام ہے جو ہر ایک کو حاصل نہیں ہوتی۔ وہ صرف ان کے لیے مخصوص ہے جو خود کو اس کے قابل بنائیں
آج بھی اگر امت مسلمہ، اہل بیتؑ کی طرح ایمانی تقاضوں، قربانیوں، اور اخلاص کے ساتھ کھڑی ہو جائے تو اللہ کی مدد و نصرت ضرور نازل ہوگی۔
ولینصرن اللہ من ینصرہ ان اللہ لقوی عزیز ترجمہ اور یقیناً اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا جو اس کے دین کی مدد کرے۔ بے شک اللہ زبردست اور غالب ہے (حج 40 )