غزہ: طبی نظام مکمل طور پر مفلوج ہونے کے قریب
غزہ میں وزارتِ صحت کے فیلڈ اسپتالوں کے ڈائریکٹر، ڈاکٹر مروان الہمص نے فوری جنگ بندی کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ اس وقت نسل کشی، خوراک کی شدید قلت، پانی، ایندھن اور بجلی کی عدم دستیابی جیسے سنگین بحرانوں کا سامنا کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان ضروری اشیاء کی فراہمی کے لیے راستے کھولنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے
انہوں نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ صحت کا نظام مکمل تباہی کے دہانے پر ہے۔ ادویات اور ضروری طبی سامان ختم ہو چکا ہے، اور فیکٹریوں اور ورکشاپس کی بندش کے باعث خراب طبی مشینری کی مرمت بھی ممکن نہیں رہی
ڈاکٹر الہمص نے خبردار کیا کہ قابض افواج کے ہتھیاروں سے زخمی ہونے والوں کی حالت نہایت تشویشناک ہے۔ بعض افراد کے جسموں کا 90 سے 100 فیصد حصہ جھلس چکا ہوتا ہے، جس کی وجہ سے ان کا علاج نہایت مشکل ہو جاتا ہے
انہوں نے مزید بتایا کہ شہداء اور زخمیوں کی اکثریت بچوں، خواتین اور بزرگوں پر مشتمل ہے، جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ قابض افواج کی جانب سے محفوظ علاقوں کے دعوے جھوٹ پر مبنی ہیں
وزارتِ صحت کے مطابق، موجودہ صورتحال میں مریضوں کی شرح اموات 43 فیصد تک جا پہنچی ہے، جن میں 80 ہزار ذیابیطس، 1 لاکھ 10 ہزار بلڈ پریشر، ہزاروں کینسر اور سینکڑوں گردوں کے مریض شامل ہیں
سوء تغذیہ کے متاثرین بھی بڑی تعداد میں اسپتالوں میں پہنچ رہے ہیں، جن کی حالت چوتھے اور پانچویں درجے کی ہوتی ہے، اور وہ بروقت علاج اور دوا کی عدم دستیابی کے باعث دم توڑ دیتے ہیں۔
وزارت نے مزید بتایا کہ 18 مارچ سے اسرائیلی جارحیت کے دوبارہ آغاز کے بعد 2507 افراد شہید اور 6711 زخمی ہو چکے ہیں۔
جبکہ متعدد شہداء اب بھی منہدم گھروں کے ملبے تلے اور سڑکوں پر پڑے ہیں، جن تک ایمبولینس اور ریسکیو ٹیموں کی رسائی ممکن نہیں۔
وزارتِ صحت کے مطابق، اب تک جاری نسل کش جنگ میں 52,615 فلسطینی شہید اور 118,752 زخمی ہو چکے ہیں۔